Saturday, May 4, 2024

بہار میں ہوئی سیاسی تبدیلی کیا ملکی سطح پر اثر انداز ہوگی؟

(عبد المبین)
جب سے جنتادل یونائٹیڈ کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے این ڈی اے سے رشتہ توڑا ہے اور عظیم اتحادسے رشتہ جوڑا ہے تب سے بہار میں لیڈران کا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ این ڈی اے اور خاص طورپربھاجپا لیڈران نتیش کمار اوران کی پارٹی سمیت راشٹریہ جنتا دل کے فریقوں پر بھی آگ بگولہ ہوئے بیٹھے ہیں، ہرآن کوئی نہ کوئی بی جی پی لیڈر نتیش اور تیجسوی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، عظیم اتحاد کی اس حکومت کو جنگل راج، کریمنل راج اور بہت سارے نازیبا اور غلط القاب سے نواز رہے ہیں۔حد تو تب ہوجاتی ہے جب بھاجپا والے نتیش اور ان کی پارٹی کو ابدی طورپر بد عنوان بتانے لگتے ہیں اور جنتا کا اعتماد اور بھروسہ توڑنے والا گرداننے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نتیش کا بھاجپا سے رشتہ ٹوٹے دہائیوں کا وقت گزرا ہو۔ ان لیڈران کے ذہنوں سے شاید یہ بات نکل گئی ہے کہ ابھی ایک ماہ قبل بہار میں وہ بھی برسر اقتدار تھے۔ اور ۲۰۲۰ سے لے کر اب تک حکومت کے ہر اچھے برے اقدام کے لئے وہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کا بھی ہے کچھ ہی دنوں قبل جب بہار میں نتیش اور بھاجپا سرکار تھی تو راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کے لوگ نتیش پر ہرمعنوں میں کیچڑ اچھالتے تھے اور جیسے ہی نتیش ان کے ساتھ آگئے اب یہی لوگ ان کی مدح سرائی میں منہمک ہیں۔
یہاں ضروری یہ نہیں کہ کس پارٹی کے لوگ کس پارٹی کے خلاف کتنی زہر افشانی کررہے ہیں یہ سب تو سیاسی بیان بازیاں ہیں، ہوتی رہیں گی۔ عوام کو ایک بات واضح انداز میں سمجھ لینا ہوگی کہ سیاست کا وہ مفہوم جو کبھی خدمت خلق ، خدمت ریاست یا خدمت ملک سمجھا جاتا تھا اب اس کا مفہوم شاید بدل سا گیا ہے۔ توڑ جوڑ کا جو عمل کسی سیاسی پارٹی نے مہاراشٹر ، مدھیہ پردیش یا دیگر جگہوں میں انجام دیا وہ ملکی مفاد تھا وہی عمل اگر کوئی دوسری سیاسی پارٹی دہراتی ہے تو وہ ریاست، ملک اور عوام سے غداری قرار دیا جائے گا۔ اس بات پر بھی بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اب تو ملک سے وفاداری اور غداری کا مفہوم بھی شاید بدلنے لگا ہے، جن کو صحیح مفہوم پتہ کرنا ہو وہ سیاست دانوں سے رجوع کریں۔
ہماری تحریر کا موضوع یہ ہے کہ بہارمیں ہوئی فوری سیاسی تبدیلی کا اثر ملک پر کیا پڑ رہا ہے اور کیا پڑنے والا ہے ۔ سیاسی سوجھ بوجھ اور غیر جانبدارانہ سوچ رکھنے والے لوگوں کے بیچ سے یہ بات اٹھنے لگی ہے کہ بہار میں جس طرح سے بھاجپا کو حکمت عملی کے محاذ پر جس شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے وہ واقعی بھاجپا کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اور اس کی ذمہ دار بھاجپا خود ہے۔ آج ملک کی وہ تمام تر علاقائی سیاسی پارٹیاں جو بھاجپا سے علیحدہ ہوکر ریاستی حکومتوں کی باگ ڈور سنبھال رہی ہیں وہ سب کی سب بھاجپا سے خار کھانے لگی ہے۔ ان ریاستی پارٹیوں کو یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل بھاجپا ہمیں ہی توڑنے کی سازش نہ رچنے لگے۔ ہر علاقائی پارٹی جو بھاجپا کی معاون نہیں ہے وہ اسی ڈر کے سائے میں جی رہی ہے۔ ابھی حال میں جھارکھنڈ بھی کچھ ایسی ہی پریشانیاں جھیل رہا ہے۔
ابھی کچھ دنوں سے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو لے کر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ نتیش کمار اب بہار سے نکل کر ملک کی قیادت کی طرف بڑھنے والے ہیں۔ ۲۰۲۴ میں وزیر اعظم کا چہرہ بننے والے ہیں، یہ خبر کچھ دنوں سے لگاتار بہار میں گردش کررہی ہے، اس کی تصدیق وقتاً فوقتاً جنتا دل یونائٹیڈ کے لیڈران بھی کررہے ہیں۔ جدیو کے کئی لیڈران تو مسلسل یہ آواز لگا رہے ہیں کہ نتیش کمار مستقبل میں ملک کے وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔اس خبر کی حقیقت پر مہر ثبت کرنے والے بہت سارے الفاظ نتیش کمار نے بھی اپنی زبان سے ادا کئے ہیں۔ وہیں جدیو پارٹی دفتر پٹنہ میں لگے بینر اور پوسٹرز بھی اس خبر کی تصدیق کررہے ہیں۔ پارٹی دفتر میں لگے پوسٹروں پر یہ تحریر لکھی ہوئی دکھ رہی ہے کہ: ‘‘بہار دیکھا، ملک دیکھے گا، ریاست میں نظر آیا اب ملک میں نظر آئے گا، یہ بھی تحریر دکھ رہی ہے کہ : ‘‘جملہ نہیں، حقیقت، جھوٹی یقین دہانی نہیں، اچھی حکمرانی، آغاز ہوا ہے تبدیلی بھی آئے گی’’۔ یہ سب ایسی تحریریں ہیں جن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ نتیش کمار اگلے پارلیمانی انتخاب میں کس حیثیت سے نظر آنے والے ہیں۔ وہیں تلنگانہ کے وزیر اعلی کا بہار آنا ، اور ستمبر کی ۲ تاریخ کو للن سنگھ کا یہ کہنا کہ: ‘‘ نتیش کمار پورے ملک کا دورہ کریں گے اور لوگوں کو یہ پیغام بھی دیں گے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں بھاجپا کو مرکزی اقتدار میں آنے سے روکنا ہے۔ اب یہ پیغام اس وقت کتنا کارگر ثابت ہوگا یہ تو مستقبل ہی طے کرے گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ بہار میں بھاجپا جو داؤ کھیلنا چاہتی تھی، جسے نتیش کمار نے بروقت بھانپ لیا ، اس داؤ کے خدشے سے بہت ساری علاقائی پارٹیاں اب متنبہ ہی نہیں بلکہ بھاجپا کے تئیں خلش پالنے لگی ہیں۔ اب دیکھنے والی بات ہوگی کہ بھاجپا کے تئیں علاقائی پارٹیوں کی یہ خلش وقتی ہے یا انتخاب کے وقت تک اس کا اثر غالب رہے گا۔ اور اگر اس خلش کا اثر انتخاب کے وقت تک رہا تو یہ بھاجپا کے لئے نیک فال ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ ہاں ایسا ہوسکتا ہے کہ بھاجپا اقتدار میں آجائے لیکن جس مضبوطی کے ساتھ ابھی اقتدار پر قابض ہے شاید وہ مضبوطی برقرار نہ رہ سکے گی۔سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ ملک جس طرح کے اقتصادی، معاشی ، ترقیاتی اور روزگار کے مسائل سے دوچار ہے ایسے میں اگر بایاں محاذ اور علاقائی پارٹیوں نے اگر کسی ایک نام پر اتفاق رائے کرلیا تو مستقبل کا پارلیمانی انتخاب کس کروٹ جائے گا یہ کہنا ذرا مشکل ہوگا۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles