Friday, May 3, 2024

‘‘بے غیرت او آئی سی’’

بشکریہ: (محمدعلی سلفی)

غزہ کی جنگ کے تناظر میں منعقد ہونے والی او آئی سی کانفرنس اختلافی نوٹ پر ختم ہوئی۔ حسب روایت ہمارے ہاں اس پر یہ تنقید ہورہی ہے کہ اس کانفرنس نے کوئی بڑا قدم کیوں نہ اٹھایا ؟ موجودہ صورتحال میں تجویز کئے گئے ممکنہ دو بڑے قدم یہ تھے کہ اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کردی جائے اور ان طیاروں کے لئے عرب ممالک کی فضائی حدود بھی بند کردی جائیں جو اسلحہ لا رہے ہیں۔ چونکہ یہ دونوں اقدامات نہ ہوسکے تو فیس بکی ملت اسلامیہ کے نزدیک اس کے دو مطالب ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان حکمران بے غیرت ہیں اور دوسرا یہ کہ یہ یہود و ہنود کے ایجنٹ ہیں۔

ہماری معذرت قبول کیجئے کہ ہم اس چوتیاپے میں آپ کا ساتھ نہ دے پائیں گے۔ اس کے برخلاف ہم آپ کو ان حقائق سے آگاہ کریں گے جو “زمینی حقائق” ہیں۔ یہ گستاخی ہم اس لئے کر سکتے ہیں کہ ہمارا ذریعہ معاش چندہ نہیں۔ سو آیئے گستاخی یعنی زمینی حقائق کی جانب بڑھتے ہیں۔

او آئی سی سے متعلق ہمارا عام شہری یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ او آئی سی کو یورپین یونین جیسا اکٹھ سمجھتا ہے۔ اور یہیں سے ساری گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ سو سب سے پہلے یہ نکتہ سمجھ لیجئے کہ یورپین یونین یورپ کے ستائس ممالک کی سیاسی و معاشی یونین ہے۔ اس کی باقاعدہ ایک پارلیمنٹ ہے جس کے نمائندے انتخابات کے ذریعے چنے جاتے ہیں اور اس کے بڑے فیصلے اسی پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت، دفاع اور خارجہ امور میں سٹریٹیجک نوعیت کی پالیسی کے حوالے سے ان ممالک کی آواز ایک ہی ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے شہری ویزے کے بغیر اس یونین کے کسی ممبر ملک کا سفر کر سکتے ہیں۔ بظاہر نیٹو یورپی یونین کا حصہ نہیں بلکہ ایک الگ اتحاد ہے مگر فی الحقیقت نیٹو یورپ کا ہی دست شمشیر زن ہے۔ اسے یورپین یونین سے الگ اس لئے رکھا گیا تاکہ امریکہ اس حصہ بلکہ “کمانڈر” بن سکے جو غیر یورپی ملک ہے۔

اس کے برخلاف او آئی سی مسلم ممالک کی محض ایک “بیٹھک” ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسے یورپین یونین جیسا کیوں نہیں بنا لیا جاتا ؟ تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپین یونین کا ہر ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہے۔ ان میں سے کوئی ملک اگر کسی وقتی معاشی بحران سے دوچار ہو بھی جائے تو یونین مشترکہ فنڈز سے اسے سنبھال لیتی ہے۔ اس کے برخلاف مسلم ممالک کی اکثریت کنگال ہے۔ صرف عرب ممالک کے پاس دولت ہے۔ سو مسلمانوں کی یورپی یونین جیسی کوئی یونین تب تک بن ہی نہیں سکتی جب تک ہر مسلم ملک معاشی طور پر مستحکم نہ ہوجائے۔

اب ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیجئے کہ مسلم ممالک میں سے بعض ایسے ہیں جن کی امریکہ سے دشمنی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کی امریکہ سے بہت قریبی دوستی ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جن کے امریکہ سے گہرے قومی مفادات وابستہ ہیں۔ چنانچہ جن کی دشمنی ہے ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ آؤ امریکہ کو انگل کریں۔ وہ پہلے ہی امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سو ان کے لئے اس طرح کے فیصلے کرنا مشکل نہیں۔ مشکل باقی دو طرح کے ممالک کے لئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس کٹیگری میں ہیں ؟ ہم “قومی مفادات” والی  کٹیگری میں ہیں۔ ملک چونکہ مدرسے اور تنظیم کی طرح چندے پر نہیں بلکہ صنعت و تجارت سے چلتا ہے سو ہمارے کارخانے جو سامان بناتے ہیں ان کا سب سے بڑا خریدار امریکہ اور یورپ ہی ہے۔ ہماری 70 فیصد مصنوعات وہی خریدتے ہیں۔ ہمارے گاہکوں میں مسلم ممالک کا نمبر تیسرا ہے۔

 گاہک کی اہمیت کتنی ہوتی ہے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ 2014ء سے 2017ء تک جو لوگ محض اللہ کی رضا کے لئے ہمیں فیس بک پر ماں بہن کی گالیاں دیا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض نے فیس بک پر شہد، سلاجیت اور آم کی دکانیں کھولیں تو فورا ہی ہمیں “استاد محترم” کے منصب پر بٹھانے کے لئے ٹوٹ پڑے۔ کیوں ؟ تاکہ ہم اپنی وال پر ان کی سلاجیت کی تعریف کرکے ان کے لئے بڑے پیمانے پر گاہکوں کا بندوبست کر سکیں۔  آپ کا کیا خیال ہے چین نے اپنی نیوی کے چھ جہاز خلیج میں کیوں بھیجے ہیں ؟ کیونکہ خلیجی ممالک امریکہ کے مقابلے میں چین کے زیادہ گاہک ہیں۔ وہ چین سے ہر سال 42 ارب ڈالر جبکہ امریکہ سے 38 ارب ڈالر کا مال خریدتے ہیں۔

مفادات سے قطع نظر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کرنے سے اسے کوئی جھٹکا نہ لگتا۔ ایک کروڑ سے کم آبادی والے اس ملک کے لئے وینزویلا یا کسی بھی اور جگہ سے تیل پورا کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ چنانچہ ہوتا یہ کہ آپ کا ٹرمپ کارڈ دنیا میں تماشا بن جاتا۔ ہاں ہتھیاروں کی سپلائی والا کارڈ اہم ہے مگر ایسے کارڈ بحران کے شروع میں نہیں کھیلے جاتے۔ یہ فیصلہ کن مرحلے کے لئے سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔

ایک نہایت اہم چیز یہ کہ موجودہ وقت برکس کے لئے بے انتہاء اہم ہے۔ یہ اتحاد امریکہ کی عالمی اجارہ داری ختم کرنے جا رہا ہے۔ اور جنگ نہیں بلکہ سیاسی و معاشی ہتھیار کی مدد سے ایسا کرنے کو ہے۔ سو کوئی بھی ایسا اقدام برکس کے مفاد میں نہیں جس سے جنگ کا دائرہ بڑھنے کا امکان ہو۔  یہ موجودہ جنگ فلسطینی جیت رہے ہیں۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ لاشیں گنتے ہیں اور سوچتے ہیں بہت اموات ہوگئیں فلسطینی ہار رہے ہیں۔ اس کرہ ارض پر ایسا ایک بھی فلسطینی نہیں جس کے خاندان کے کم از کم بھی دو درجن شہداء نہ ہوں۔ ان کی تاریخ لاشوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے لئے خود کو مرنے سے بچانا مسئلہ نہیں۔ وہ آج کہہ دیں کہ بھئی مت مارو، ہمیں نہیں چاہئے فلسطین تو  بمباری رک جائے گی۔ ان کا مسئلہ آزادی حاصل کرنا ہے۔ پھر اس کے لئے دس ہزار جانیں قربان کرنی پڑیں خواہ دس لاکھ۔ اس کے لئے وہ تیار ہیں۔

 وہ بچہ پیدا ہی اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اپنے وطن کے لئے لڑے گا۔  یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شہداء بالخصوص بچوں کی تصاویر بھی اس لئے استعمال نہیں کرتے کہ دیکھو ہم پر ظلم ہو رہا ہے اسے رکواؤ۔ بلکہ اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ دیکھو اسرائیل ایسا ظالم ہے، ہمیں ہمارا ملک اور حق دینے کی بجائے بم مار رہا ہے۔ سو جانِ عزیز! فلسطین پچھتر سال سے مسلسل چلنے والا ایک انقلابی کاز ہے،  منزل اس کی ایک ہی ہے۔ آزاد فلسطین۔ اور یہ منزل انہیں مل کر رہے گی۔ یہ ساری قربانیاں وہ اسی کے لئے دے رہے ہیں۔ انہیں غلامی قبول کرنی ہوتی تو عرب اسرائیل جنگوں کی ناکامی کے بعد کر لیتے۔  آپ ان کی لاشوں کی فکر چھوڑیئے، ان کی تحریک پر فوکسڈ رہئے، اور آواز بلند کرتے رہئے۔ وہ آواز جو اب آپ کی وال پر دم توڑتی جا رہی ہے !

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles