(عبدالمبین)
آج بھارت کے تمام کسان زراعتی قوانین کو لے کر پریشان ہیں۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے ملک کے کسان دھرنے پر بیٹھے ہیں، کئی احتجاجی ریلیاں ہوچکی، چکے جام بھی ہوئے۔ کڑاکے کی ٹھنڈ اور سرکار کی بے اعتنائی کے باوجود پر عزم ہوکر پنجاب، ہریانہ، یوپی، اترا کھنڈ، اور دیگر ریاستوں کے کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ کئی کسان احتجاج کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے قید ہیں، دو کسانوں نے خودکشی کر لی ، کئی کسان احتجاج کے دوران لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اور اس کسان تحریک کی آڑ میں ہی گزشتہ یوم جمہوریہ کے دن ملک کی پیشانی پر ایک بد نما داغ بھی لگا جب ملک کی آن بان شان کہا جانے والا لال قلعہ کی فصیل پر کچھ شدت پسندوں نے چڑھ کر ترنگا کے بجائے اپنے نشان کا جھنڈا لہرایا۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ یہ مذموم فعل کسانوں میں سے کسی نے انجام دیا یا پھر کسان تحریک کی آڑ اور اسے بدنام کرنے کے لئے کسی اور نے کیا۔ لیکن ان سب باتوں کے بیچ ایک بات قابل تشویش ہے کہ زراعت پر منحصر ملک کے دیگر ریاستوں کی فہرست میں بہار کا نام بھی نمایاں ہے لیکن اب تک بہار کے کسانوں نے اس زرعی قانون کی مخالفت یا موافقت میں کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ کیا بہار کے کسانوں کو زرعی قوانین سے کوئی سروکار نہیں؟ کیا یہاں کے کسان ان قوانین سے بالا تر ہیں؟ یا پھر بہار کے کسانوں کے لئے سرکار کی جانب سے کوئی علیحدہ من سلوی آنے والا ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو بہارکے کسانوں کے ضمن میں ملکی سطح پر اٹھ رہے ہیں۔
آج ملک میں ڈھائی ماہ سے جو خبریں تواتر کے ساتھ ٹی وی اور اخبارات میں سرگرمی کی حیثیت لئے ہوئی ہے وہ ہے ‘‘کسان تحریک’’ گزشتہ ۶ فروری کو ملک بھر میں چکا جام کیا گیا اور بڑے ہی پرامن طریقے سے کسانوں نے اپنا احتجاج درج کیا۔ اب حکومت کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اس مسئلے کا حل نکالتی ہے یا نہیں یہ تو حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ مگر کسانوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔
حالیہ دنوں میں کسان آندولن کی حمایت میں کچھ عالمی شخصیات بھی اپنا اظہار خیال کرچکی ہیں، جس میں کملا حیرش کی بھتیجی مینا حیرش، ماحولیات اور سماجیات کی تحفظاتی نظام کی ماہر گریٹا تھن برگ، عالمی شہرت یافتہ فن کار رئینا، اور میاں خلیفہ جیسی کئی شخصیات ہیں جنہوں نے کسان آندولن کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت کی حکومت اور کچھ فن کاروں نے ان عالمی ہستیوں کو بھارت کے داخلی معاملات سے دور رہنے کی تنبیہہ کر ڈالا ہے۔ حالانکہ بھارتیہ فن کار یہ بھول گئے کہ کہیں بھی انسانوں کی تکلیفوں کے حل کے لئے کسی بھی ملک کا شہری کسی دوسرے ملک کے انسانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے یہی انسانی حقوق کے تحفظ کا اصل سبق ہے۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ آج کے دور میں اگر کوئی ہماری غلطیوں پر ہمیں تنبیہہ کرتا ہے تو ہم اسے اپنا دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں کچھ ایسا ہی ہمارے ان فن کاروں کا بھی حال ہے جنہیں کسانوں کی صعوبتیں دکھائی نہیں دیتیں، جنہیں کسانوں کی وہ پریشانیاں دکھائی نہیں دیتیں جو اناج اگاتے وقت کسان جھیلتے ہیں، زرعی قوانین کی موافقت کرنے والے کسی بھی فرد کو یہ احساس نہیں ہوا کہ آخر وہ کھاتے تو دال چاول اور روٹی ہی ہیں۔ کیا اس قدر پریشان حال کسان کاشت کاری کر سکے گا؟ بالکل نہیں! ان بھارتیہ ہستیوں کو سوچنا چاہئے کہ سر کار کی فرمابرداری الگ بات ہے اور یہاں کے شہری کی پریشانیوں کو سمجھنا الگ بات۔ زرعی قوانین کو سمجھنا الگ بات ہے اور زرعی معاملات کو سمجھنا الگ بات ہے۔ زراعت لفظ کو جان لینا کسانوں کا صحیح حال جاننا قطعی نہیں ہے۔
لیکن بہار کے کسان جس طرح اس زرعی قوانین سے دامن بچا رہے ہیں انہیں آخر ہو کیا گیا ہے؟ کیا بہار کے کسان اب اپنی کھیتوں سے غلہ کی جگہ سونا اگانے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں؟ کاش ایسا ہوتا، قدرت نے ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ابھی کسانوں کو کھیتوں سے غلے ہی اگانے ہوں گے۔ انہیں اپنی کھیتوں میں وہی صعوبتیں جھیلنی ہوں گی جو پہلے جھیلتے آئے ہیں، تو پھر ایسا کیا ہے کہ کسان اس قانون کو لے کر خاموش بیٹھے ہیں؟جب کہ ملک بھر میں اس قانون کی مخالفت ہوہری ہے۔ یا پھر اقتدار کے نشانے پر آنے سے ڈرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار کے کسان بھی اس زرعی قوانین کے پیچ وخم کو سمجھیں، آخر جو پریشانیاں اس قانون سے دیگر کسانوں کو ہونے والی ہیں وہیں بہار کے کسان کو بھی لاحق ہوگی۔ یوں تو پورا ملک کاشت کاری پر محنصر ہے لیکن بہار ان چنندہ ریاستوں میں سے ہی جن کا اقتصادی انحصار بہت حد تک زراعت پر ہے۔ یہاں کے کسانوں کوبھی ملک کے دیگر کسانوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا چاہئے۔ تاکہ سنگھو بارڈر یا دیگر جگہوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کو تقویت ملے۔ اور سرکار کو یہ لگے کہ آج پورا کسان اس قانون کے خلاف ہے تب ہوسکتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔