Friday, May 17, 2024

اسلامی احکام کی پاسداری کرتے ہوئے راجگھاٹ نہیں گئے محمد بن سلمان

(ڈاکٹر محمد وسیم)

دہلی میں جی-20 کا اجلاس 9 ستمبر کو ہوا، جس میں دنیا کے بڑے بڑے لیڈر شریک ہوۓ، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اجلاس میں شرکت کے لیے سنیچر کی صبح ہی پہنچ چکے تھے، دوسرے دن یعنی 10ستمبر کی صبح کو ہندوستان کے وزیرِ اعظم کے ساتھ دنیا کے تمام بڑے بڑے لیڈر راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کی سَمادھی پر گئے، تمام لیڈروں نے سمادھی پر جُھک کر گُلہاۓ عقیدت پیش کیے اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی، لیکن اِس غیر اسلامی عمل میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان شریک نہیں ہوۓ، اِسی طرح سے متّحدہ عرب اِمارات کے صدر بھی شریک نہیں ہوۓ۔

اِس غیر اسلامی عمل میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آخر محمد بن سلمان اِس عمل میں شریک کیوں نہیں ہوۓ، جس پر بی بی سی کی خبر بھی سامنے آ گئی ہے، خبر کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے سابق پروفیسر اور پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ”سَلَفِی جنھیں اہلِ حدیث بھی کہتے ہیں وہ کسی بھی سَمادھی یا کسی بھی مَزار پر نہیں جاتے ہیں”، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا ہے کہ سلفی فِکر کے ماننے والوں کے یہاں تو قبروں کو پَکّی بنانا بھی حرام ہے۔

ہمارے مُلک میں سناتن اور ہندو دھرم کے نام پر بہت کچھ ہو رہا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ سارے لوگ ہندو ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ تم مسلمان اپنے شَعائِر کو چھوڑ دو، جی-20 میں بھی سناتن کا پرچار کیا گیا اور برطانیہ کے وزیرِ اعظم کو نہ صرف ہندو کہا گیا بلکہ ایئرپورٹ وغیرہ پر سناتن دھرم کے بعض رسوم و رواج کو انجام دینے کے بعد اُس کا پرچار بھی کیا گیا، یعنی یہ سب کر کے وہ ہم پر اپنی برتری دکھانا چاہتے اور اپنے آپ کو سب پر فوقیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، ایسے وقت میں محمد بن سلمان کا راجگھاٹ نہ جانا کچھ شدت پسند لوگوں کو بہت چبھ رہا ہے۔ لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ محمد بن سلمان نے راجگھاٹ نہ جاکر کوئی مجرمانہ عمل نہیں کیا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات پر ان کے اسلاف بھی عمل پیرا تھے اور عین اسی تعلیمات کی موافقت کرتے ہوئے انہوں نے راجگھاٹ سے دوری بنائی ہے۔ یہ ان کے عقیدہ اور مذہب سے محبت کی علامت ہے نہ کہ بابائے قوم بھارت کی شان میں گستاخی ہے۔

سعودی عرب کے ایک بادشاہ تھے شاہ سعود، جنھوں نے دسمبر 1955ء میں یہاں کی حکومت کی دعوت پر 17دنوں کا خصوصی دَورہ کیا تھا، کہا جاتا ہے کہ بنارس میں شاہ سعود کا قافلہ جن راستوں سے گزرا تھا اُن راستوں کی تمام مندروں اور مورتیوں کو پَردوں سے ڈَھک دیا گیا تھا، تاکہ عقیدۂ توحید کے علمبردار کو بُرا نہ لگے، اُس موقع پر نذیر بنارسی نے لکھا تھا کہ..

اَدنیٰ سا غلام اُن کا گزرا تھا بنارس سے

مُنہ اپنا چُھپاتے تھے کاشی کے صنم خانے

اُن ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد محمد بِن سلمان بھی عقیدۂ توحید کو اوّلیت دیتے ہوۓ مہاتما گاندھی کی قبر پر حاضری دینے نہیں گئے، اُن کا یہ عظیم عمل آج کے ماحول میں ہمارے لئے احساسِ برتری دِلانے والا عمل ہے اور یہ عظیم عمل ہمیشہ کے لئے تاریخ میں لکھا جا چکا ہے.

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles