Thursday, May 2, 2024

فلسطینیوں پر اسرائیل کی بمباری اور حماس کا کردار

بشکریہ: (شیخ شیرخان جمیل احمد عمری)

غزہ، فلسطین کی موجودہ جنگ کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کو وہی لوگ صحیح سمجھ سکتے ہیں جو عالمی اور مشرق وسطی کی سیاست کو گہرائی سے جانتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں فلسطین میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ایک الفتح اور دوسری حماس۔ سنی ممالک حماس کی بجائے عموماً الفتح کی تائید کرتے ہیں اس کی وجہ حماس کا ایران اور حزب اللہ اور ان کے حواریوں سے قریب ہونا اور ان کو اپنا مشیر بنالینا ہے۔

پچھلی کئی جنگوں کا رزلٹ امت کے سامنے ہے، موجودہ صورت حال میں بھی فلسطین کا مسئلہ جنگ سے حل ہونا مشکل تھا اس لئے سنی ممالک اس مسئلہ کے حل کے لئے اس کے متبادل سیاسی حل یعنی دو ریاستی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے جو حماس کو منظور نہیں تھا۔ ( اگرچہ کہ ایک خبر کے مطابق اتنی تباہی اور قتل وغارت گری کے بعد حماس کے لیڈر اس فارمولہ پر بات کرنے اور سیاسی حل کے لئے تیار ہیں۔)

حماس کو ستمبر 2023 میں جب معلوم ہوا کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے تو وہ سنی ممالک کو چھوڑ کر اپنے مشیران کی ایماء پر اسرائیل پر حملہ کردیا۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا اس حملہ سے قبل ایران اور حزب اللہ کی زبان اسرائیل وامریکہ کے خلاف آگ برسا رہی تھی، سخت دھمکیاں دی جارہی تھیں ! لیکن حملہ کے بعد ان لوگوں نے اپنا پلہ جھاڑ لیا بلکہ دونوں نے یہاں تک کہدیا کہ حماس کے حملہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان دونوں کو آخر اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر غور کیجئے!

حماس کے مشیران کو یہ گمان تھا کہ یہ جنگ شروع ہوجائے گی تو کچھ سنی ممالک تو ضرور ان کا ساتھ دیں گے اور فزیکلی میدان میں آئیں گے پھر اسرائیل وامریکہ ان کی بینڈ بجائے گا اور سنی ممالک کو تباہ کرے گا یا کم ازکم ان کی فوجی ودفاعی قوت کو ختم یا کمزور کردے گا جس کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ پر سنی عرب ممالک کی گرفت مزید کمزور پڑجائے گی۔

سنی ممالک رافضیوں (شیعوں) کے ایجنڈے سے اچھی طرح سے واقف ہوچکے ہیں۔ اس لئے وہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لے رہے ہیں، پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔

آپ سنجیدگی سے جائزہ لیجئے؛  ایران اور حزب اللہ وغیرہ کیوں حماس کی مدد نہیں کر رہے ہیں ان کو چھوڑیے، اردن کو دیکھئے جو اخوانیوں اور حماسیوں کا بہت بڑا گڑھ ہے اس ملک نے حماس کی فزیکل مدد میں کوئی قدم نہیں اٹھایا سوائے اپنے سفیر واپس بلانے اور کچھ بیان دینے کے۔ قطر کو دیکھ لیجئے جہاں حماس کا ہیڈ آفس قائم ہے، حماس کے لیڈر اسماعیل ھنیہ وہیں رہتے ہیں، لیکن قطر نے حماس کی کوئی فوجی مدد نہیں کی، دس ہزار سے زائد بالخصوص معصوم فلسطینی بچے اور عورتیں شہید ہوچکے ہیں اور روزانہ اس میں اضافہ ہورہا ہے، غزہ کا مکمل انفراسٹکچر تباہ کیا جارہا ہے اور قطر حماس کی کوئی فزیکل مدد نہیں کر رہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قطر کی سرزمین پر حماس کا ہیڈ آفس بھی ہے اور ساتھ ساتھ امریکی فوج کی ایک بڑی بٹالین بھی پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ ترکی اتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی وہ بیان بازی کے علاوہ فزیکلی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکا بلکہ وہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ خوب تجارت کر رہا ہے۔ تعجب اس وقت اور زیادہ ہوتا ہے جب ترکی یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا رہے ہیں لیکن اس سے تعلقات ختم نہیں کریں گے۔ ترکی کی اپوزیشن “سعادت پارٹی” کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اردگان حکومت کے نفاق کی پول کھول کر رکھدی ہے؛ وہ کہتے ہیں “افسوس کہ 16 سال سے غزہ محاصرہ میں ہے اور بائیکاٹ کیا ہوا ہے لیکن اسرائیل کے لئے بائیکاٹ نہیں ہے آج (ترکیہ) حکومت کے دسیوں ممبر کہتے ہیں کہ ہم غزہ کے لئے غمگین ہیں ٹھیک ہے میں مانتا ہوں لیکن جو اسرائیلی پائیلٹ غزہ میں لوگوں کا بمباری سے قتل عام کر رہے ہیں انہوں نے ترکیہ کے قونیہ میں ٹریننگ حاصل کی ہے، اسرائیلی طیاروں کے لئے ایندھن ترکیہ کے اسکندون سے فراہم کیا جا رہا ہے، غذا ترکیہ کے الانیا  سے جا رہا ہے پانی ترکیہ کے مانوگاٹ سے جا رہا ہے۔ صہیونی آبادکاری کے لئے لوہے اور اسٹیل کی تجارت 20 میلیارڈ تک پہنچ گئ ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن شاید قاتل اسرائیلیوں کے لئے اسلحہ بھی ترکیہ کی حکومت کی حمایت سے فراہم کیا جا رہا ہے، تو اگر آپ لوگوں میں جرأت ہے تو آجائیں اس کے بارے میں بات کریں”۔

آپ اسی طرح سے دیگر اسلامی ممالک کی تحلیل کرتے چلے جائیں ساری پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لوگ صرف سعودی عرب کو گالی دیتے ہیں، آجکل سعودیہ کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا ہے جبکہ حماس کے حمایتی کئی ملکوں کے نفاق کو جان بوجھ کر سب چھپاتے ہیں۔

یاد رکھیں یہ جنگ بظاہر فلسطین کی جنگ ہے لیکن حالات بتارہے ہیں کہ اب کی بار کی یہ جنگ شیعہ سنی جنگ کا ایک حصہ لگتی ہے جو سنیوں اور سنی ممالک کو تباہ کرنے کے پلان سے کچھ ممالک نے حماس کے ذریعہ شروع کی ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن قرینے یہی بتلاتے ہیں پھر بھی حقیقی علم اللہ علیم خبیر کے پاس ہے۔

ممکن ہے حماس اپنے مشیروں کے حقیقی خفیہ ایجنڈے سے واقفیت نہ ہو وہ وکٹم ہو، لیکن مسلسل دھوکہ کھائے جانے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ جلد اس دھوکہ سے باہر نکل آئے ورنہ ان کی مثال شیخ یوسف القرضاوی صاحب  کی طرح ہوگی کہ وہ عمر کے آخری پڑاؤ میں غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ آپ اپنے ایک انٹرویو میں کھلے الفاظ میں کہتے ہیں آپ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حزب اللہ ، خمینی اور ایران کو سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے علماء مجھ سے زیادہ سمجھدار تھے، وہ حق پر تھے اور میں غلطی پر تھا پھر آپ سعودیہ کے فوت ہوجانے والے اور زندہ علماء کے حق میں دعا فرماتے ہیں۔۔۔۔۔

شیخ قرضاوی صاحب کے رجوع کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ 

اخیر میں ورلڈ لیڈرشپ بالخصوص جملہ اسلامی ممالک کے سربراہان سے میرا شدید مطالبہ ہے کہ وہ غزہ میں فوری اسرائیل کی بربریت کو روکیں، بلا تاخیر جنگ بندی کرائیں اور معصوم لوگوں کی جان بچائیں۔ اسرائیل کو حماس سے بدلہ لینا تھا تو وہ معصوم فلسطینیوں کو کیوں قتل کر رہا ہے، معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل کا اس کے پاس کیا جواز ہے؟ دنیا اسرائیل کو اس ظلم سے فوری روکے۔ میں مانتا ہوں کہ مسلسل جنگ کے باوجود حماس کا معصوم لوگوں پر حملہ کرنا غلط تھا، یہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف عمل تھا، ہم اس کو کنڈم کرتے ہیں۔ لیکن اس کو بہانہ بناکر اسرائیل جو معصوم فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے کیا وہ سراسر ظلم نہیں ہے؟ ہم اس کی اور شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے پاس اس کا نہ قانونی اور نہ ہی اخلاقی جواز موجود ہے لہذا وہ اس ظلم سے فوری باز آجائے۔

اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی غیب سے مدد فرما، ان کو اپنوں کی سازشوں اور دشمن کے حملوں سے محفوظ فرما اور جلد سے جلد انہیں اس آزمائش سے نجات دلاے دے آمین۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles