(عبدالمبین)
حال ہی میں ملک کے دو مختلف تعلیمی اداروں سے مذہبی منافرت پھیلانے کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس نے ملک کی گنگا-جمنی ثقافت کو داغدار کر دیا تھا اور ملک کے وہ تمام امن پسند لوگ جو باہمی ہم آہنگی، امن پسندی اور بین المذاہب امن واتحاد میں یقین رکھتے ہیں اور امن پسندی کی راہ پر گامزن ہیں، جنہیں ہندوستانی ثقافت پر فخر ہے ان تمام ہندوں اور مسلمانوں کو دھچکا لگا۔ لیکن یہ آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ جنوبی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری نے نئی پارلیمنٹ میں مذہبی منافرت پھیلانے کی پوری کوشش کی۔ اور بدقسمتی سے آج تک بی جے پی پارٹی نے رمیش بدھوری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
واضح رہے کہ جمعرات کو دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بیدھوری نے چندریان 3 کے بارے میں بات کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں موجود بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ دانش علی کنور کو گالیاں دینا شروع کر دیں اورجی بھر کے ایوان میں ان کی بے عزتی کی۔ رمیش بیڈھوری نے دانش علی کنور کو کے لئے ایسے ایسے بے ہودہ الفاظ کہے جن کو سن کر ایک عام آدمی کو شرم آجائے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے رکن اسمبلی دانش علی کنور کو بھڑوا، انتہا پسند، دہشت گرد، کٹوا، ملا جیسے ناشائستہ الفاظ تک کہہ ڈالے۔
جب بی جے پی ممبر پارلیمنٹ میں ایسی بیہودہ باتیں کہہ رہے تھے تو بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ ان کی بیہودگی پر مسکرا رہے تھے۔ کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ بی جے پی لیڈران سڑکوں چوراہوں پر یا انتخابی تقریریں تو چھوڑیں جمہوریت کے مندر سے بھی اب مذہبی منافرت پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں؟
جب ایسے لیڈر یا ایم پی ایوان لوک سبھا سے کسی مسلم ایم پی کی اس طرح توہین کرسکتے ہیں تو جانئے کہ ایسے ایم پی یا لیڈر دیگر جگہوں پر عام مسلمانوں کے خلاف کیا کہہ رہے ہوں گے اور کیا کررہے ہوں گے۔ بڑی مشکل سے ایک مسلم لیڈر ابھرتا ہے، کوئی مسلمان ایم ایل سی یا ایم ایل اے بنتا ہے اور بہت کوششوں کے بعد ایک مسلمان ملک کی لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں پہنچتا ہے۔ جو دو چار مسلم ایم پی ایوان میں پہنچتے ہیں۔ ملک کے باقی مسلمانوں کی امیدیں ان سے وابستہ ہوتی ہیں، کہ وہی دو چار لوگ تمام مسلمانوں کے حقوق اور عزت نفس کا تحفظ کریں گے، لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ جب انہی چند مسلم رہنماؤں کو اس طرح کی توہین سہنی پڑتی ہے تو پھر باقی مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟
ایسے نازک وقت میں لوک سبھا اسپیکر، بی جے پی پارٹی اور سب سے بڑھ کر وزیر اعظم اور ملک کے صدر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے غیر مہذب، بدمزاج اور بدتمیز ایم پی رمیش یا ایسی ذہنیت کے دیگر ممبران پارلیمنٹ کے خلاف مناسب کارروائی کریں۔ تاکہ جمہوری نظام اور جمہوری حکومت پر عام عوام کا جو اعتماد ہے اسے ٹھینس پہنچنے، متزلزل ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا جاسکے۔