Friday, March 29, 2024

افغانی عوام کو مرعوب کرنے کے لئے طالبان کو اپنے رویہ میں نرمی برتنی ہوگی

(عبد المبین)
افغانستان باہری افواج کے تلسط سے اب پوری طرح آزاد ہوچکا ہے۔ امریکہ کا آخری فوجی دستہ بھی اب افغانستان سے باہر جا چکا ہے۔ افغانستانی عوام جو کچھ ہفتوں پہلے تک باہری افواج کے تلسط کے زیر سایہ تھی آج آزادی کی سانس لے رہی ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں افغانستان کی عوام پوری طرح طالبان کے کردار سے مرعوب ہے؟ کیا وہاں کی عوام صد فیصدی طالبان کے کردار (جو ماضی میں طالبان نے پیش کیا) اس سے مطمئن ہے؟ کیا طالبا نی احکام کی پیروی کے لئے وہاں کی رعایا پوری طرح رضا مند ہے؟ کیا طالبان افغانوں کے ساتھ ماضی کے رویہ سے ہٹ کر بہتر سلوک کررہا ہے؟۔
ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو طالبان کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ دنیا کے پردہ سیمین پر جو باتیں طالبان کے تعلق سے مشتہر ہیں وہ یہ کہ آج سے بیس سال پہلے جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول پایا تھا اس وقت اس کا رویہ عوام کے تئیں قدرے سخت تھا۔ اب کے وجوہات چاہے جو بھی ہوں۔ طالبان نے ماضی میں اقتدار سنبھالا تھا تو اعلانیہ طورپر سختی کا اظہار بھی کیا تھا، عوام الناس کے طرز زندگی پر طالبان نے جن سختیوں کو نافذ کیا تھا ان میں معاشرتی معاملات میں تھے۔ جسے دنیا تشدد کے نام سے جانتی ہے۔ دنیا کے لب پر بس ایک ہی بات تھی کہ طالبان اپنے شہریوں پر تشدد برت رہا ہے۔ حقو ق نسواں پر پابندیاں عائد کررہا ہے، تعلیم نسواں کی راہ مسدود کررہا ہے۔ جمہوریت کے ایسے بہت سارے ظابطے تھے جن کا طالبان نے مخالفت کیا تھا۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ جمہوریت کے نام پر افغانستان میں جو چیزیں رائج ہورہی تھی اسے طالبان نے اس وجہ سے روکنا چاہا کیوں کہ اسلام سے ان مروجہ رسوم کی ٹکراہٹ ہوتی تھی۔ اسلام نے عورتوں کو حجاب کا پابند بنایا ہے، اسلام حقوق نسواں کی پاسداری کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیتا ہے لیکن اس کا طریقہ نام نہاد جمہوریت سے بالکل مختلف ہے۔
ابھی حال ہی میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ بہت سارے افغانی ترک وطن کررہے ہیں۔ بہت ساری خواتین طالبانی احکام کے زیر سایہ اپنے آپ کو مقید محصور محسوس کررہی ہیں۔ اس ضمن میں بی بی سی کی ایک خبر سامنے سے گزری جس میں ولی محمد (فرضی نام) جو افغانی ہیں۔ اور کئی سالوں سے افغانستان میں رہ کر ایک برطانوی ادارے کے لئے کام کرتے ہیں۔ طالبان کی آمد کے بعد ولی محمد نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ کس پریشانی میں اپنے ملک کو خیر باد کہا کس طرح وہ لندن پہنچے، ان کے بچے اور ان کی اہلیہ نے سفر کی کتنی صعوبتیں برداشت کیں، سارے واقعات بی بی سی نے اپنی خبر میں قلمبند کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ بی بی سی نے یہ قلمبند نہیں کیا کہ آخر ولی محمد پر طالبان نے ایسا کون ساظلم ڈھایا کہ وہ اپنے ملک سے باہر جانے کے لئے اتنی صعوبتیں برداشت کیں، کیا طالبان نے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا؟ بالکل نہیں! بلکہ یہ بات عام ہوگئی ہے کہ طالبان نے قبضہ کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے باوجود ولی محمد کو اتنا خوف زدہ ہوکر اپنا ملک چھوڑنے کی کیا مجبوری آن پڑی۔
وہیں بی بی سی کی ایک اور خبر سامنے آئی جس میں لکھا ہے کہ افغانستان کے تیسرے سب سے بڑے شہر ہرات میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی زندگیاں مکمل طورپر منجمد یا بدل گئی ہے۔ ان کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے ایک خاتون ثنا (فرضی نام) کی بیان کردہ باتوں کو خبر میں اہمیت دی گئی ہے۔ مذکورہ خاتون کا کہنا ہے کہ میں کئی سالوں سے ایک غیر ملکی این جی او کے لئے کام کرتی ہوں۔ میں طالبان کے بارے میں لوگوں سے سنتی آئی ہوں کہ طالبان لوگوں پر تشدد کرتے ہیں۔ اس خاتون نے کہا کہ طالبان نے ایک ہفتہ قبل کسی آدمی کو چوری کرنے کے جرم میں پکڑا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ خواتین کا باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ خواتین پر پردہ کو لازم قرار دیا جارہا ہے۔ اور میرے (ثنا) لئے پردہ بڑا مشکل ہے، مجھے پردے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ میں اب اکیلے یا بے پردہ اپنے این جی او کے کام کے لئے کہیں نہیں جاسکتی۔ میری زندگی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میں اس طالبانی فرامین سے خوش نہیں ہوں۔
خاتون کی باتیں سن کر تو بلا شبہ ان لوگوں کو ایک درد بھری آہ نکلتی ہی ہوگی جو شاید یہ نہیں جانتے یا جانتے ہیں تو سمجھتے نہیں کہ طالبان نے اپنے تلسط کے دن ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اب سے افغانستان میں اسلامی امارت یعنی اسلامی شریعت نافذ کیا جائے گا۔ کیا اس ثنا نامی خاتون کو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں انہیں پتہ نہیں کہ اسلامی شریعت میں چوری کرنے کی سزا ہاتھ کاٹ دیا جانا ہے۔؟ کیا انہیں پتہ نہیں کہ اسلام میں حجاب لازمی ہے؟ کیا انہیں پتہ نہیں کہ اسلام محرم کے ساتھ ہی سفر کی اجازت دیتا ہے؟ اب ان سارے اسلامی امور کو اگر وہ خاتون یا اس جیسی دیگر خواتین تشدد سمجھ لے تو یہ اس کے فہم کی غلطی ہے۔ اس کا الزام طالبان کے سر دینا جائز ہے؟ قطعی نہیں! کیوں کہ افغانستان کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ وہاں مختلف ادوار میں مختلف لوگوں یا ملکوں نے اپنا تسلط قائم کیا اور انہوں نے اپنے طرز معاشرت، یا تہذیب وثقافت کو افغانستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اور لوگوں نے بادل ناخواستہ اسے تسلیم بھی کیا۔ جب کہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ افغانیوں کی اکثریت مذہب اسلام کی پیروکار ہے۔ اب اگر آپ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ایک مسلم ملک کے شہری ہیں تو آپ کو اسلامی فرامین پر عمل کرنے میں مضائقہ کیا ہے؟ ہاں تکلیف تو تب ہونی چاہئے جب طالبان اپنا ہٹلری قانون افغانیوں پر نافذ کرے۔ کوئی اپنا آئینی منشور نافذ کرے جس کی بنیاد سختی پر مبنی ہو۔ لیکن سماعتوں کو ٹکرانے والی خبروں کے مطابق طالبان نے ایسا کچھ تو اعلان نہیں کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ یہاں اسلامی قانون نافذ ہوگا۔
طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنا یہ طالبان کے تشدد کی دلیل نہیں ہے۔ جب کہ دنیا شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم یا کسی ملک نے دوسرے قوم یا ملک پر تلسط جمایا ہے تو خوب کی ندیاں بہی ہیں، لیکن طالبان کے اس دورثانی کے قبضے میں ایسی کوئی خبر تو سامنے نہیں آئی کہ جس میں دوچارسو شہریوں کو جان گنوانی پڑی ہو۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ماضی میں طالبان نے اپنے کچھ ایسے کردار واضح کئے تھے جس سے سختی یا تشدد کی جھلک سامنے آتی ہے۔ اگر طالبان نے ماضی کی ان غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا تو جس طرح انہیں بیس سال اقتدار سے دور رہنا پڑا تھا شاید اس سے بھی زائد عرصہ پھر سے محرومی اقتدار کا سامنا کرنا پڑے۔ طالبان کو چاہئے کہ اپنے شہریوں پر اسلامی آئین کے نفاذ میں نرمی سے کام لے، کیونکہ لوگوں کو جمہوریت کی بے لگام تہذیب کی عادت لگ گئی ہے۔ جن خواتین کو مغربی کلچر کی لت لگ گئ ہے انہیں تھوڑا وقت تو ضرور لگے گا اسلامی تہذیب کے دامن میں آنے میں۔ لیکن ہاں طالبان نے اپنے اس اخلاق کا مظاہرہ کیا جو اسلام کا خاصہ ہے تو لوگوں کو مرعوب کرنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles