(ڈاکٹر صغیر احمد ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
یوپی کے لکھیم پور ضلع میں کسانوں کی دردناک موت کا حادثہ بھلے ہی بھاجپا کو نیند سے بیدار نہ کرے لیکن پورا ملک اس حادثے کا سوگ منا رہا ہے۔ چار کسانوں کووحشیانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارنے کا ویڈیو آج ملک تمام لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور اس ویڈیو کو دیکھ کر شاید ہی کسی انسان کی آہ نہ نکلے۔
اس حادثے کے ذمہ دار مرکزی وزیر اجے مشرا اور ان کے بیٹے آشیش مشرا کے خلاف مقدمہ تو درج ہوچکا ہے۔ لیکن ہندوستان کی عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ وزیر کو ان کے عہدے سے برخواست کیا جائے اور ان کے بیٹے کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔
ٹی وی چینل، اخبارسمیت سوشل میڈیا کے تمام تر ذرائع پر آج ایک ہی خبر گردش کررہی ہے اور وہ ہے یوپی کے لکھیم پور ضلع کے تیکونیا گاؤں کے کسانوں پر گاڑیوں سے حملہ۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ لکھیم پور میں کسانوں کا مظاہرہ چل رہا تھا مرکزی وزیر اجے مشرا کا قافلہ اسی راستے یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ کے استقبال کے لئے جا رہا تھا۔ اسی بیچ وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا اور ان کے پیچھے کی تین گاڑیوں نے کسانوں کو روند ڈالا جس میں چار کسانوں کی موت ہوگئی اور بہت سے کسان زخمی ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ اجے مشرا وہی مرکز ی وزیر ہیں جو ہمیشہ کسانوں کے خلاف بیان بازی کے لئے بدنام ہیں۔ اس حادثے سے قبل بھی اجے مشرا نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ: ‘‘کسانوں اپنے احتجاج اور مظاہروں سے باز آجاؤ، میں ایک لیڈر اور وزیر بننے سے قبل کیا تھا اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے اگر میں اپنے پچھلے اوتار میں آگیا تو دو منٹ میں کسانوں کو سدھار دوں گا’’۔
اب کوئی بھی ذی شعور فرد وزیر اجے مشرا کے اس بیان کے بعد کسانوں کو گاڑیوں سے روندے جانے کو ایک اتفاق سمجھے گا یا پری پلانڈ مڈر یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلا شبہ اس حادثے کے بعد وزیر اجے مشرا کی نیت صاف جھلکتی ہے۔
اس پر طرۂ امتیاز یہ کہ آج بھاجپا کا کوئی لیڈر اس حادثے پر افسوس یا تعزیت ظاہر کرنے کے بجائے تکبرانہ بیان بازی کررہا ہے۔ آج تک ٹی وی چینل کے ایک مباحثے میں بھاجپا ترجمان شیلمنی نے کے سے تیاگی کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ کسانوں کے حق میں بولنا ان کو شہہ دینا ہوگا۔ ترجمان کی اس سوچ کی جتنی فضیحت کی جائے کم ہے۔ کسانوں کو تعزیت پیش کرنا اس حادثے پر افسوس کرنا انہیں شہہ دینے والی بات کیسے ہوسکتی ہے۔
وہیں ایک اور افسوس کہ بات یہ سامنے آرہی ہے کہ آج منگل کو کانگریس کی پرینکا گاندھی، سماجوادی کے اکھیلیش سمیت دیگر کئی لیڈران جب لکھیم پور کے لئے روانہ ہوئے تو انہیں متاثرین کے خاندان سے ملنے سے روک دیا گیا اور انہیں جیل میں بند کردیا گیا ہے۔ بھلے ہی وہ جیل عارضی جیل ہو۔ جبکہ ہونا تو چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت خود متاثرین سے ملنے جاتی اور دوسری جماعت کے لیڈران بھی ان کسانوں کی تیمارداری کے لئے جاتے۔ لیکن افسوس کہ اب مرکزی حکومت نے تیمارداری کرنے والے پر ہی شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے۔ اب ایسے حالات میں فساد کا خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ جس سے شاید حکومت جان بوجھ کر آنکھیں موند رہی ہے۔
کانگریسی لیڈر نوجوت سنگھ سدھو نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ اگر پرینکا واڈرا کو رہا نہیں کیا گیا تو پنجاب کانگریس لکھیم پور کے لئے کوچ کرے گی۔
اب اگر ایسا ہوا تو حکومت کی پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔ کتنی پارٹیوں کو حکومت وہاں جانے سے روکے گی۔ کاش! حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی، کاش! کسانوں کی موت کا ذرہ برابر بھی احساس مرکزی حکومت کو ہوتا تو مودی جو کہ لکھنؤ یا کانپور میں موجود ہیں وہ کچھ پل کے لئے ہی سہی لکھیم پور ضرور جاتے۔
اس پر افسوس اور گہرا ہوجاتا ہے کہ ابھی تک کسی بھی بھاجپا لیڈر نے اس حادثے کو لے کر غم یا تعزیت کا اظہار نہیں کیا ہے۔