Wednesday, April 24, 2024

، جلوس اور ماتم حسین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں!

ڈاکٹر صغیر احمد (ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
محبت اہل بیت، محبت نواسۂ رسول اور رسم اسلام کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں میں رائج تعزیہ سازی، جلوس اور ماتم حسین کی بے بنیاد رسم سے آج کوئی بھی ذی علم مسلمان انجان نہیں ہے۔ عالم دین خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے حرمت والے مہینے محرم الحرام میں مسلمان ماتم حسین (جس کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں) کے نام پر کس طرح کی بیہودگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ غلط رسم کی ادائیگی کرتے ہیں بلکہ اس غلط رسم کی ادائیگی میں مسلمان شرکیہ اعمال بھی انجام دیتے ہیں اور ان شرکیہ اعمال کی انجام دہی میں انہیں ذرہ برابر بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کررہے ہیں۔ ہمارے علما اس بابت ممبر ومحراب سے بارہا کہتےآئے ہیں کہ محرم الحرام کے اس مہینے میں ماتم حسین، امام باڑہ کی تخلیق، تعزیہ برداری کے ساتھ نوحہ خوانی کرتے ہوئے مصنوعی کربلا تک جانا سراسر غلط ہے۔ اس کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ امت کی ایک لمبی فہرست اس کی ادائیگی میں فخر سمجھتی ہے، اور وہ لوگ جو اس کے قائل اور فاعل ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی دین اسلام کا ایک جز ہے۰۔
تعزیہ سازی کو لے کر علما اور مؤرخین نے صاف طورپر یہ کہا اور لکھا ہے کہ تعزیہ سازی، نوحہ خوانی یا تعزیہ کا جلوس نکالنا یہ سب ایک خرافات ہے جسے من گھڑت انداز میں اسلام سے جوڑا جاتا ہے۔ ہندوستانی تاریخ کی ورق گردانی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نویں صدی ہجری تک ہندوستان میں تعزیہ سازی یا جلوس بازی کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ہمایوں کے زمانہ میں ایران سے کچھ لوگ ہندوستان آئے اور آباد ہوئے۔ لیکن اس وقت بھی ہندوستانی مسلمانوں میں نوحہ خوانی، تعزیہ سازی یا جلوس کا کوئی رواج نہیں ملتا۔ ہمایوں کے بعد ہندوستان کے کچھ خطوں میں کچھ ایسے حکمراں ہوئے جو اس عقیدے کے پیروکار تھے، اور تیمور لنگ کا دور تھا اس دور میں کچھ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ غم حسین کو لے کرنوحہ اور ماتم کی کچھ جھلکیاں پائی گئیں۔ عالمگیر کے دور تک ہندوستان میں تعزیہ جیسی بدعت کی کوئی مکمل شکل نظر نہیں آتی۔ ہاں اس کے بعد کے ادوار سے جیسے جیسے بیرونی لوگ ہندوستان آئے، یہاں کے لوگوں کے ساتھ ان کا میل جول بڑھا اور پھر تہذیب وتمدن کے اشتراک نے مذہبی رسومات پر بھی اپنی اثر انگیزیاں شروع کی ہوں گی۔ ایک بات عام ہے کہ لوگ مذہب کے نام پر پیدا کئے جانے والے بدعات کی طرف بڑی جلدی مائل ہوتے ہیں اور غالب گمان ہے کہ کچھ ایسے ہی لوگ رہے ہوں گے جنہوں نے اس بدعت کو مذہب کا رنگ دیا ہوگا۔ اور اُنہیں دیکھ ہندوستانی مسلمان بھی اس طرف مائل ہوئے ہوں گے اور پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے یہ بدعت نما شرک اہل سنت والجماعت میں ایسے پھیل گیا جیسا زہر جسم میں پھیلتا ہے۔ اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بدعت کب کیسے اور کہاں سے مسلمانوں میں گھر کر گیا لیکن سر جوڑ کر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کلی طورپر اس کا خاتمہ امت سے کیسے ہو۔
ہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ادھر کچھ دہائیوں سے اس قبیح فعل کی انجام دہی میں کچھ حد تک کمی آئی ہے۔ لیکن مکمل طورسے اس کا سدباب اب بھی امت کے ذی علم افراد کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ علما اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ برسوں سے اس قبیح فعل سے امت مسلمہ کو روکنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں لیکن یہ امت خاص طورپر اہل سنت والجماعت کے لوگ اس سےباز نہیں آرہے ہیں۔ عام طورپر لوگوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں نے نواسۂ رسول امام حسین کی محبت میں ماتم کیا تھا، اور ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بھی اس دن کو ماتمی دن کے طورپر یاد کریں۔ ان کم عقلوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ امام حسین کی شہادت سے قبل سیکڑوں اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میدان جنگ میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اگر اہل بیت کی ہی بات ہے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے اور بالآخر پرچم اسلام کی سربلندی کی خاطر شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں ایسے صحابہ کرام غزوۂ بدر، احد یا دیگر غزوات میں شہید ہوئے تو کیا ان کی یوم شہادت پر ہمیں ماتم کرنا چاہئے۔ اور اگر آپ ماتم کا ڈھونگ ہی رچنا چاہتے ہیں تو سال کے پورے دن آپ کو ماتم کرنا چاہئے کیوں کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن پرچم اسلام کی سربلندی کی خاطر کسی صحابہ، تابعی تبع تابعی یا مجاہد اسلام نے جام شہادت نوش نہ کیا ہو۔ اور سب سے بڑی بات کہ اکثروبیشتر شہید شدہ صحابہ کرام کی شہادت کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی پیش آیا لیکن حضورﷺ نے کسی بھی صحابہ کی شہادت کو لے کر یوم ماتم منانے کو نہیں کہا۔ تو پھر امت امام حسین کے ماتم کا ڈھونگ کیوں رچ رہی ہے۔ کیوں اسے اسلام کا جز قرار دیتے ہیں؟ جب کہ شہادت حسین کے دن کو غم ماتم کے طورپر اس وقت موجود صحابہ کرام نے نہیں منایا تو ہم کیوں یہ خرافات انجام دے کر اپنے آپ کو غیراسلامی طریقے سے اہل بیت کا عاشق گرادن رہے ہیں۔
تعزیہ سازی اور محرم کے دس دنوں کی پوری طرح سے تفصیل دیکھی جائے تو یہ محض بدعت نہیں بلکہ واضح طورپر شرک نظر آتا ہے۔ امام باڑہ کی تعمیر، امام باڑہ پر چڑھاوا چڑھانا، ڈھول تاشوں کے ساتھ رقص وسرور کی محفلیں سجانا، اور پھر دسویں محرم کو یا حسین (یا حسین کہنا بھی شرک ہے، کیونکہ یا عربی میں زندہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے) کے نعروں کے ساتھ تعزیہ (یعنی امام حسین کا پتلا ) لے کرگاجا باجا اور جلوس کے ساتھ نوحہ خوانی اورمرثیہ خوانی کرتے ہوئے نیز یزید کو گالیاں دیتے ہوئے اس جگہ پر جانا جوخود ساختہ کربلا ہو، بھلا ان سب شرکیہ اعمال کا تعلق اسلام سے کیونکر ہوسکتا ہے۔ تعزیہ سازی اور تعزیہ داری کے نام پر جلوس نکالنا یہ سب سراسر غلط ہے۔
ابھی ابھی محرم کا مہینہ گزرا ہے جس میں ہم سب نے اپنے اپنے گاؤں اور شہروں میں تعزیہ سازی کا ننگا ناچ دیکھا ہوگا، اوردودن بعد چہلم ہے، اس میں بھی کچھ لوگ تعزیہ سازی کرتے ہیں، اور انہی شرکیہ اعمال کی ادائیگی ہوتی ہے جو برسیٔ حسین یعنی دسویں محرم کوادا کئے جاتے ہیں۔ امت سے میری پرخلوص گزارش ہوگی کہ اللہ کے واسطے اس شرک وبدعت سے دور رہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی مل جاتے ہیں جو یہ اقرار تو کرتے ہیں کہ تعزیہ سازی بدعت ہے لیکن وہ لوگ بھی تعزیہ کے جلوس میں یہ کہتے ہوئے شامل ہوتے ہیں یا پھر جلوس کی کفالت کرتے ہیں کہ اس سے اسلامی رعب کا پتہ چلتا ہے۔ اور درحقیقت ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی اسلامی احکام سے عاری ہوتی ہے، صوم وصلاۃ سے کوسوں دور ہوتے ہیں، انہیں اسلامی رعب کی پڑی ہے۔ اسلامی رعب کی چھاپ ہی چھوڑنی ہے تو اسلامی احکام کی پیروی کیجئے! اسلام رعب دکھا کر نہیں بلکہ اخلاق دکھاکر پھیلا ہے۔ تلوار کے زور پر لوگ اسلام کی طرف نہیں آتے،تسبیح کی زور پر اسلام کے گرویدہ ہوتے ہیں۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles