Friday, April 19, 2024

افغانستان میں اسلامی امارت کی مشکلات اور اس کا حل

(ترہت نیوز ڈیسک)
طالبان کی فتح کے بعد پوری دنیا دہشت زدہ ہوگئ ہے حیران وپریشان ہوگئ ہے ہر ایک کی زبان پر طالبان کے خوف کا چرچا ہے۔
کچھ ممالک نے اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور کچھ تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور کچھ نے تسلیم کیا ہے
جن ممالک نے انکار کیا ہے ان میں سر فہرست برطانیہ وغیرہ ہیں۔ جن ممالک نے خاموشی کو ترجیح دی ہے ان میں ایران سعودی عرب اور عرب امارت سر فہرست ہیں۔ اور جن ممالک نے تسلیم کیا ہے ان میں پاکستان چین اور قطر ہیں۔ اور روس بھی تقریباً تسلیم کرچکا ہے کیونکہ وہ اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا ہے اگر روس تسلیم کرلے تو اس کی وجہ سے بہت سے ممالک تسلیم کرلینگے
اور جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو اس کا بیان کسی ایک طرف نہیں ہے کبھی کچھ تو کبھی کچھ لیکن قطر میں جس طرح امریکی اہلکار اکٹیو نظر آرہے ہیں تو لگتا ہے طالبان سے کچھ باتیں منواکر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرسکتے ہیں
اگر ایسا ہوجائے تو برطانیہ فرانس وغیرہ سے کوئ فرق نہیں پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ ممالک امریکہ کے اتحادی نہیں ہیں بلکہ امریکہ پر مکمل ایمان لانے والے ہیں۔ اس فتح کے بعد چین اگر مکمل طالبان کا ساتھ دے تو امریکہ کی سپر پاوری ختم ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے چین کے اتحادی ممالک میں اضافہ کے ساتھ طاقت میں بھی اضافہ ہوجائےگا۔ اب امریکہ کی دال جنوبی مشرقی ایشیا اور وسط ایشیا پر نہیں گلے گی۔ جنوبی ایشیا میں صرف انڈیا امریکہ کی مدد کرسکتا ہے لیکن پڑوسیوں کی وجہ سے امریکہ کی مدد نقصان پہنچا سکتی ہے
لیکن انڈیا اپنی حفاظت کے لیے بہت سے ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔اور اس کی خواہش رہے گی کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے( کیونکہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی طاقت ہاتھ لگ گئ ہے)۔ اگر روس طالبان سے ہاتھ ملالے تو ہندوستان بھی طالبان کی حکومت تسلیم کرسکتا ہے اور ایرا ن تو کرےگا ہی۔ اگر طالبان کی حکومت کامیاب رہی اور کسی سازش کا شکار نہ ہوئ تو وہ دوسرے مسلم ممالک کے لیے آئیڈیل بھی بن سکتے ہیں۔
لیکن ایک بات یاد رکھی جائے کہ طالبان کی حکومت کے خلاف جتنی سازشیں مسلم ممالک کرینگے اتنی سازشیں غیر نہیں کرینگے۔ اب طالبان کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے امن قائم کرے جب تک امن قائم نہیں ہوگا دنیا کی میڈیا ناچتی رہے گی۔ اور دوسری بات اپنی حکومت کا اعلان کرنے کے ساتھ اپنی فوج اور پولس کا بھی انتظام کرے۔ اور تسري بات معاشی حالت مستحکم کرے اپنی زمین میں پیداوار بڑھاکر اور قرض لیکر
اور چوتھی بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرے ( اس سلسلے میں مظبوط حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی)۔
پانچویں بات ماضی میں جو غلطیاں ہوگئ ہیں ان کو نہ صرف سدھارنے کی کوشش کرے بلکہ مستقبل میں اس سے فاۂدہ اٹھائے۔
چھٹی بات یہ ہے کہ ملک میں جو عام معافی اعلان کردیا گیا ہے بہت اچھی خوش آئند بات ہے لیکن کچھ لوگ طالبان کے باغی ضرور ہونگے خواہ وہ سیاست سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج سے انہیں ملک بدر کردیا جائے ( حکمت عملی کے ساتھ) قید نہ کیا جائے ورنہ دنیا کی ہمدردی ایسے سیاسی قیدیوں کے تعلق سے بڑھ جائے گی البتہ کچھ سیاسی طاقتوں کو قید کرنا بھی ضروری ہے ورنہ دشمن ممالک ان سے سازش کروانے کی پوری کوشش کرینگے۔
ساتویں بات یہ کہ طالبان جو اسلامی شرعی قانون لائینگے اس میں جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ دھیرے دھیرے اس کا نفاذ کرے ( محمد مرسي سے سبق لے سکتے ہیں) کیونکہ افغانستان میں امریکہ کے 20 سال رہنے کی وجہ سے وہاں کے شہری باشندے کسی حد تک ماڈرن بن چکے ہیں اسلیے سوچ سمجھ کر حکمت عملی کے ساتھ دھیرے دھیرے اسلامی قانون کو عملی جامہ پہنائے۔
آٹھویں بات طالبان پر یہ الزام ہے کہ عورت کے حقوق کو کالعدم کردیتے ہیں۔ اس تعلق سے اسلامی دائرہ میں رہ کر عورت کے حقوق کی مکمل پاسداری کرے۔
نویں بات طالبان پر یہ بھی الزام ہے کہ طالبان مجاہدین کی دوسری تحریکوں کو اپنے ملک میں بڑھاوا دیتے ہیں اگر ایسی بات ہے تو طالبان اس چیز کو ختم کرکے اپنی ایک طاقتور مظبوط فوج بنانے پر زیادہ توجہ دے جو جدید ہتھیار ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے ساتھ جدید فوجی تربیت سے بھی آراستہ وپیراستہ ہو۔
دسویں بات یہ ہے کہ میڈیا ابھی سے صدر اور وزیراعظم چیخ رہی ہے یعنی یہ کہنا چاہتی ہے کہ طالبان جمہوری حکومت کے طرز پر اپنی حکومت کی بنیاد ڈالے گا
اس شک کو دور کرتے ہوے اسلامی طرز پر حکومت بنائے
بغیر اعلان کئے ہوے۔ البتہ جمہوریت کی جو چیزیں اچھی لگے اس کو اختیار کرلے۔
گیارہویں بات میڈیا کی آزادی سے تعلق رکھتی ہے تو اس سلسلے میں طالبان کو چاہیے کے ابھی وہ فی الحال میڈیا کو آزادی کا سبز باغ دکھائے تاکہ دنیا کی میڈیا کسی حد تک خاموش رہے اور خوش رہے لیکن پروپیگنڈہ کرنے والی میڈیا پر دھیان رکھے بلکہ پوری میڈیا پر دھیان رکھے تاکہ اچھی باتیں ہی باہر جائے بری باتیں نہ جائے ورنہ دنیا کی میڈیا تنکے کو پہاڑ بنادے گی۔
بارہویں بات جدید تعلیم کے تعلق سے ہے۔ اس تعلق سے طالبان کو چاہیے کچھ نئ حکمت عملی تیار کرے تاکہ آگے چل کر افغانستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
تیرہویں بات طالبان سرکاری دفاتر کو صحیح کرکے ابھی سابقہ ملازمین ہی کو برقرار رکھتے ہوے کام جلد شروع کردے تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو۔
چودہویں بات یہ ہے کہ طالبان لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے ساتھ ڈر وخوف کو بھی ختم کرے اور ہر ایک کو ان کے گھر پہنچانے کی کوشش کرے اور شہر کی ٹریفک کو بھی ختم کرنے کی کوشش کرے
تاکہ امن وامان قائم ہو۔ پندرہویں بات چونکہ یہ انقلاب کی گھڑی ہے اسلئے معاشی اعتبار سے بہت سے لوگ پریشان حال ہونگے کچھ بھوگے پیاسے ہونگے۔ اس وقتی بھوک مری اور عارضی معاشی بحران کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور بھوکے پیاسے تک کھانا پانی پہچانے کی کوشش کرے
آخری بات یہ ہے کہ اپنے ملک میں کسی طرح کی سازش کو پنپنے نہ دیں اندرونی یا بیرونی ورنہ اسلامی امارت کے لیے وبال جان بن جائے گی ویسے طالبان کی جنگی حکمت عملی اور افغانستان کو فتح کرنے کی حکمت عملی کا دنیا نے کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے ہندوستانی میڈیا نے بھی اعتراف کیا کہ کس طرح انہوں نے کابل کو گھیرا اور بغیر کسی بڑی جھڑپ کے پورے افغانستان کو فتح کر لیا ہے۔
اسلئے اب حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے اور آئندہ سوسال تک حکومت کرنے کے لیے طالبان ایسی حکمت عملی تیار کرے کہ دنیا عش عش کر ے اور منھ میں انگلی دباکر دیکھتی رہ جائے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles