Thursday, April 25, 2024

بہار میں قہر برپا رہی ہے زہریلی شراب، 50 کے قریب لوگوں نے گنوائی جانیں۔

(عبد المبین)
بہار میں زہر یلی شراب کا قہر تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں میں تقریبا پچاس لوگ اس زہریلی شراب کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ گوپالگنج، سمستی پور، اور مغربی چمپارن میں اب تک چالیس سے زائد اور پچاس کے قریب لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ اور اور کتنے ہی ابھی زندگی اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔ موت پر افسوس تو انسان کا فطری عمل ہے۔ انسانی جانوں کی قدرو قیمت ہر ایک فرد جانتا ہے۔ ہر کس و ناکس یہ چاہ رہا ہے کہ بہار میں موت کا یہ تماشا اب تھم جائے، دھڑکتا ہوا دل رکھنے والا ہر انسان افسوس کا اظہار کر رہا ہے۔ کچھ لوگ اس سانحے پر اپنی سیاست کی روٹیاں بھی سینک رہے ہیں۔ جنکے افسوس میں درد کم اور سیاسی طنز نمایاں ہیں۔ اب ہر ذی شعور کو یہ پتہ ہے کہ شراب نوشی اپنے آپ میں نقصان دہ ہے اور سستی شراب تو بلاشبہ موت کو دعوت دینے والی چیز ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اپنی عادت سے باز نہ آکر موت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنے آپ کو روکنا ہوگا۔ اُنہیں سوچنا ہوگا کہ انکی جانیں بہت سی زندگیوں کو سوگوار کر نے کے بجائے ان کے لئے فرحت کا سامان بنیں۔ اس کے برعکس زہریلی شراب بنانے والوں کے تئیں سرکار کو مزید سخت قانون نافذ کرنا ہوگا۔ یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ بہار میں شراب نوشی، اور شراب کے خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔ لیکن پھر بھی حکومت کو اپنے تیور ان موت کے سودا گروں کے تئیں سخت کرنے ہوں گے۔
وہیں آج کے اس سسلے وار سانحے کے ضمن میں دیکھا جائے تو سرکار کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اب تک بہار کے کسی برسرِ اقتدار لیڈر نے مناسب طریقے سے اس سانحے کے خلاف کچھ بیان نہیں دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بیان جاری کر وزیر اعلی نتیش کمار کو نشانہ ضرور بنایا ہے۔
اس کی زمہ دار حکومت ہو نہ لیکن انتظامیہ ضرور ہے۔ وہ اس طرح سے کہ آج نیپال سے ملحق تمام گاؤں یہ شهروں کے علاوہ تقریبآ پورے بہار میں شراب کی ہوم ڈیلیوری ہو رہی ہے۔ اور انتظامیہ کبھی کبھار اپنے نام نہاد ڈیوٹی کا ثبوت دیتے ہوئے شراب کی کچھ گاڑیوں کو پکڑتی ہے، لیکن افسوس کہ کاروباری فرار ہو جاتا ہے۔ وہیں بڑے کاروباری بڑے اطمینان سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اب انہیں اموات کو لے لیجئے سرکاری افسران لچھے دار اور سخت الفاظ کا استعمال کریں گے کہ کسی بھی شراب کاروباری کو بخشا نہیں جائے گا۔ بہار میں شراب کاروبار پوری طرح بند ہوگا، لیکن پچھلے ریکارڈ کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ افسران کی باتیں محض باتیں ہی ثابت ہوں گی۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles