Thursday, January 30, 2025

غیر مسلموں کے تہواروں پر مبارکبادی

(اسد الرحمن تیمی)

غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر انہیں مبارکباد پیش کرنا فقہاء کے درمیان ایک مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے . اجتہادی مسائل میں دوسروں کی رائے سے عدم اتفاق عام بات ہے۔لیکن اس مسئلے میں حیرت کی بات یہ کہ اس کے جواز کی رائے رکھنے والوں کو سرے سے مسترد ہی کردیا جاتا ہے، چنانچہ کچھ سالوں قبل جب سعودی عرب کے ایک بڑے عالم عبداللہ المطلق نے جب اسے جایز قرار دیا تو ان کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔انہیں بے اعتبار اور متساہل قرار دیا گیا۔حالانکہ انہوں نے مصلحت کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ دنیا میں کہیں بھی مسلم اقلیتوں کی حالت زار سے کون ہے خبر ہے۔ اگر کوئی سماجی کارکن یا مسلمان اپنے پڑوسی اور رفیق کار کو مبارکباد پیش کر دے تو اسے فوراً مشرک، بدعتی فاسق اور کافر بتانے سے گریز نہیں کیا جاتا اگر مان بھی لیا جائے کہ اس کا جواز غلط اؤر گناہ ہے تو کیا کسی مسلمان کو شرک، بدعت فسق اور کفر سے متصف کرنا کم بڑا گناہ ہے؟
دراصل حرمت کا فتویٰ دینے والے حضرات اسے عقیدے کا ایک مسٔلہ مانتے ہیں۔یعنی جو لوگ بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں یا غیر مسلموں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ان کی نظر میں یہ لوگ ان کے باطل عقائد کا ایک طرح سے اقرار کرتے ہیں، اگر ایسی بات ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کی خواتین سے شادی بھی جائز نہیں ہونی چاہیے،جو کہ بالاتفاق جائز ہے،قرآنی نص کی رو سے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن نوہجری میں نجران کے عیسائیوں پر مشتمل ایک وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا تھا اور ان لوگوں نے مسجد نبوی میں اپنی عبادت بھی کی تھی۔ (زاد المعاد) واضح رہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کے جنازے کی تعظیم میں کھڑے ہوگئے تھے۔
حرمت کا فتویٰ دینے والے حضرات اپنی بات کی تائید میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اوران کے شاگرد ابن قیم الجوزیہ کا حوالہ دیتے ہیں، حالانکہ ان علماء نے خاص حالات وظروف میں یہ باتیں کہی تھیں، شیخ الاسلام کی کتاب الصراط المستقيم لمخالفه اصحاب الجحيم،ایسے حالات میں لکھی گئی جب کہ صلیبی بیت مقدس پر قابض تھے اور تاتاری عالم اسلام کو تباہ کر رہے تھے۔ اس وقت یہ ضروری تھا کہ ان کے ساتھ میل جول کے معاملے میں سختی کی جائے،
آج کے حالات بالکل برعکس ہیں، غیر مسلم ممالک میں پڑوسی اور رفیق کار کی صورت میں مسلمانوں کا سامنا غیر مسلم حضرات سے ہوتا رہتاہے۔جو عموماً سکھ دکھ میں ان کے ساتھ ہونے ہیں۔
مزید برآں بعض محققین کا کہنا ہے کہ شیخ الاسلام اس کے جواز کے قائل ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شیخ الاسلام ان تہواروں کے موقع پر لگنے والے بازاروں میں شرکت اور خرید و فروخت جایز قرار دیتے ہیں۔
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مفتی کے لیے نصوص شرعیہ کی جانکاری کے ساتھ ساتھ مستفتی کے حالات و کوائف کو بھی جاننا ضروری ہے۔ابن قیم إعلام الموقعين عن رب العالمين میں کہتے ہیں: اگر دوسرے ملک کا کوئی شخص تمہارے پاس فتویٰ کے لئے آئے تو اپنے ملک کے حالات کے حساب سے فتویٰ مت دو۔ بلکہ وہاں کے حالات کے مطابق فتویٰ دو۔دور حاضر کے جن علماء نے بھی غیر مسلموں کے تہواروں پر مبارکباد کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے ان کی اکثریت مسلم ملک شہری تھی۔انہوں نے مسلم اقلیتوں سے حالات زندگی کو قریب سے نہیں دیکھا۔ اگر وہ یورپ اور ہندوستان میں رہنے والے والے مسلم اقلیتوں کے حالات دیکھتے تو شاید اس قسم کا فتویٰ نہیں دیتے، یا اس کا افتا مقامی علماء کے حوالے کر دیتے۔
مشہور عالم مصطفی زرقا کہتے ہیں کہ یہ مبارکبادی صرف ایک مجاملہ اور سماجی رشتے کی پاس داری ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
یہ کہنا کہ غیر مسلموں کے تہواروں پر مبارک باد پیش کرنے کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے بالکل بے بنیاد ہے۔بغیر کسی نص اور دلیل کے اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟اس بابت چاروں اماموں میں سے کسی کا بھی بھی قول صحیح طور پر منقول نہیں۔
جن علماء نے اس کے جواز کی بات کہی ہے ،انہوں نے درج ذیل آیات سے بھی استدلال کیا ہے۔لا يَنْهَـٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوۤاْ إِلَيْهِمْ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ” [الممتحنة: 8]
وقوله تعالى في سورة المائدة: “ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْمُحْصَنَـٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ” [المائدة:5]
وقوله تعالى: “وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا” [النساء:86]
وقوله تعالى:{هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ} [الرحمن: 60]،
حرمت کا فتویٰ دینے والوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا اور نبی صلی وسلم کسی عمل کو نہ کرنا اس کے حرام ہونے کی دلیل نہیں۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles