Saturday, October 19, 2024

حسن ہو حجاب میں

أسد الرحمن تیمی

مسلم خواتین کے حجاب کی مخالفت کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔صدیوں سے اہل مغرب نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہےاور اس کی آڑ میں مسلم خواتین کی بے بسی اور مظلومیت پر گھڑیالی آنسو بہائے ہیں۔
عصر حاضر کے نام نہاد مفکرین اسے خواتین کی ترقی کی راہ میں میں رکاوٹ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔وہ یہ مانتے ہیں کہ “محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عرب کے اس بدوی سماج اور روایات سے متاثر ہو کر پردہ کا نظام عاید کیا جہاں عورتوں کو کمتر اور غلام سمجھا جاتا تھا،گویا پردہ عورتوں پر مردوں کی برتری اور انہیں گھروں میں قید کرنے کا ایک طریقہ ہے،جبکہ یہ عورتوں کے پچھڑاپن کی ایک علامت اور ان کی ترقی کی راہ کا بڑا روڑا ہے۔”
افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب سے متاثر مسلمانوں کا ایک بڑا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی ذہنیت کا حامل ہے کہ “مسلمانوں کی حجاب جیسی خرابی کا دور کیا جانا ضروری ہے۔یہ لوگ اپنی بات کی تائید میں اسلامی کتابوں سے شاذ اقوال و آراء ڈھونڈ ڈھونڈکر لاتے ہیں اور قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا من پسند معنی نکال کر یہ بتاتے ہیں کہ حجاب اسلام کی طرف سے عورتوں کو دی ہوئی آزادی کے خلاف ہے اور کتاب و سنت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ خواتین زندگی کے کسی بھی میدان میں مردوں سے پیچھے رہیں گی اور ان کی حرکات و نشاطات محدود ہوں گی”۔یہی وجہ ہے کہ بہت پہلے مسلم ملک ترکی میں بھی مصطفی کمال اتاترک نے آزادی نسواں کے نام پر حجاب پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ حجاب کا نظام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رایج نہیں کیا بلکہ اس کا رواج قدیم یونانی، رومی، فارسی اور ہندوستانی تہذیبوں میں بھی ملتا ہے۔تمام آسمانی اور غیر آسمانی مذہبی کتابوں میں اس کا ذکر ہے۔آج بھی دین پسند خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہیں خواہ ان کا تعلق جس مذہب سے بھی ہو۔
معلوم ہوا کہ یہ ایک انتہائی قدیم رواج ہے۔جب اسلام آیا تو اس وقت بھی یہ مختلف اقوام میں رائج تھا گرچہ اس کے پیچھے الگ الگ مقاصد کارفرما تھے،مثلا قدیم روایت کی نقل یا زیب و زینت یا عریانیت بے حیائی اور فتنہ سے حفاظت وغیرہ۔اسلام نے اس رواج کے تعلق سے بھی وہی موقف اختیار کیا جو اس نے دیگر عادات روایات کے تعلق سے اختیار کیا تھا،یعنی اچھی چیزوں کو اپنایا اور بری اور دین مخالف چیزوں کو یا تو سنوارا یا پھر اس کی نفی کر دی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حجاب مسلم خواتین پر اللہ تعالی کی طرف سے عائد کردہ ایک فریضہ ہے۔وہ اپنے بندوں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے کہ کون سی چیز اس کے دین اور دنیا کے لئے مفید ہے۔پہلے اس کے مردوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں پھر خواتین سے کہا کہ “واہ اپنا زیب و زینت (غیر مردوں کے سامنے) ظاہر نہ کریں کریں مگر جوازخود ظاہر ہو اور اپنے گریبان پر اپنے دوپٹے ڈال کر رکھیں اور صرف شوہر کے سامنے اپنی خوبصورتی کا اظہار کریں”.(النور31)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:”اے نبی! اپنی بیویوں, بیٹیوں اور مسلم خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈال کر رکھیں کھی”.( الاحزاب)
چونکہ حجاب الہی حکم ہے اس لئے اس پر کسی قسم کے چوں چرا کی گنجائش نہیں۔اسے بحث و مباحثہ اور تنازعہ کا مسئلہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہ اسلام کی بنیادی چیزوں میں سے ہے۔کیوں کہ “جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردے تو اس کے بعد کسی مسلمان مرد یا عورت کو اس کے بارے میں کوئی اختیار نہیں رہتا”۔ (الاحزاب)
دراصل حجاب کا مقصد جنس کے بھوکے بھیڑیوں سے خواتین کی حفاظت وصیانت ہے تاکہ اس کی عزت وعظمت اور عفت و پاکدامنی پر داغ نہ آیے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles