(ترہت نیوزڈیسک)
کہا جاتا ہے کہ زبان سے کہے گئے الفاظ کمان سے نکلے ہوئے تیر سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ اس زخم کا اثر اس وقت اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جب یہ کسی بڑی جماعت کی نمائندگی کرنے والے شخص کی بات پہنچا ہو۔ آج آر جے ڈی کے قومی چیف جنرل سکریٹری عبدالباری صدیقی نے اپنے بیان سے ہندوستان کے تقریباً پچیس کروڑ مسلمانوں کو ایسا ہی زخم دیا ہے۔ واضح رہے کہ عبدالباری صدیقی نے ہندوستان کے ماحول کو مسلمانوں کے لیے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ عبدالباری صدیقی کے اس بیان کو لے کر بھاجپا لیڈران کی طرف سے سخت مذمت کی جا رہی ہے اور عبدالباری صدیقی کے خلاف غداری وطن کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
ویسے سیاست دانوں کا کسی بات پر مذمت کرنا سیاسی معاملہ ہے۔ مذمت کرنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کسی بیان سے ہندوستان کے کس گروہ کے جذبات کو کتنی ٹھیس پہنچی ہے اور اس بیان نے اس گروپ کے ماضی، حال اور مستقبل پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے۔ عبدالباری صدیقی کی طرف سے دیا گیا یہ بیان بی جے پی یا دیگر جماعتوں کے لیے تنازعہ یا مذمت کا سیاسی ہتھیار ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم کمیونٹی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کا یہ بیان مسلم کمیونٹی کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔
عبدالباری صدیقی نے کیا کہا:
آر جے ڈی لیڈر عبدالباری صدیقی نے ایک اردو اخبار کی جانب سے قانون ساز کونسل کے نئے چیئرمین دیویش چندر ٹھاکر کے اعزاز میں منعقدہ پروگرام میں کہا کہ میں اب ہندوستان میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، ہندوستان کا ماحول مسلمانوں کے رہنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں آباد ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
صدیقی صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے، انہوں نے کس سوچ کے تحت یہ بیان دیا صرف وہی جانتے ہیں۔ لیکن 25 کروڑ ہندوستانی مسلمان جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہایا، ہر طرح کی قربانی دی، اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں دوسرے ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی اس ملک کو آزاد کرانے میں ہر مظالم برداشت کئے ہیں۔ اس ملک کو سینچنے میں جال لگائی ہے۔ کیا یہ ملک اب ان کے رہنے کے لیے موزوں نہیں ہے، کیا مسلمان دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہو جائیں؟ لیکن کیوں؟
کیا صرف اس لیے کہ یہاں ہندو مسلم کے درمیان کچھ باہمی لڑائیاں ہوتی ہیں، یہ لڑائیاں ہندو مسلم نہیں بلکہ بھائی بھائی کی لڑائیاں ہیں، ان لڑائیوں سے نفرت کی نہیں محبت کی بو آتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ ان باہمی لڑائیوں سے ہمارے ملک کو کبھی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ لڑائیاں کبھی ان دونوں کے درمیان دشمنی کی دیوار نہیں بنی، ہر مذہب کے کے لوگوں نے ترنگے کو اونچا اٹھانے کے لئےمضبوطی سے ہاتھ اٹھائے۔ جب بھی ہندوستان کی شان و شوکت کی بات آئی، ہم سب ایک ساتھ کھڑے رہے۔
جس وقت ملک ہندوستان اور پاکستان کے دو ناموں میں تقسیم ہوا، اس وقت ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے مسلمانوں کو یہ آواز دی کہ: اے مسلمانو تم اپنے ملک کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ جہاں بھی جاؤگے وہاں آپ مہاجر ہی کہلاؤگے۔ اب اگر مولانا آزاد کی سوچ عبدالباری صدیقی جیسی ہوتی تو ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمانوں کا بیڑہ غرق ہو جاتا۔
عبدالباری صدیقی کا یہ بیان کسی بھی طرح درست نہیں۔ ماحول کی کشیدگی یا دیگر کسی بھی تنازعہ کی وجہ سے کسی بھی کمیونٹی کا اپنے مادر وطن کو چھوڑنا قطعی درست نہیں ہوسکتا۔ عبدالباری صدیقی کے دو بچے، جو ہارورڈ یا لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھتے ہیں، ان کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں جاکر رہ سکتے ہیں، لیکن کیا ان کی طرح ہندوستان کے دیگر 25 کروڑ مسلمانوں کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک میں جاکر آباد ہوجائیں؟ شاید چند ہزار یا چند کروڑ مسلمان اس قابل ہوں اوراگر وہ ایسا قدم اٹھا بھی لیں تو کیا وہ اس ملک میں وہی عزت حاصل کر پائیں گے جو انہیں ہندوستان میں ملتی ہے، کیا وہ اس ملک میں فخر سے کہہ سکیں گے کہ :
’’ہمارا لہو بھی ہے شامل یہاں کی مٹی میں‘‘
عبدالباری صدیقی جیسے قدآور لیڈر جو مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے کئی بار سوچنا چاہئے۔ ان جیسے لیڈروں کے بیانات مسلمانوں کے جذبات اور مثبت ارادوں کو تقویت دینے کی سمت میں ہونے چاہئیں، نہ کے ان کے دلوں میں مایوسی بھرنے کا ذریعہ بنیں۔