ڈاکٹرصغیر احمد(ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
ملک کی سب سے پرانی اور زیادہ دنوں تک حکومت کرنے والی پارٹی کانگریس پچھلے کچھ برسوں میں زوال کی طرف گامزن ہے۔ مرکز سمیت ملک کے اکثروبیشتر ریاستوں میں حکومت کرنے والی کانگریس کا اب یہ حال ہے کہ صرف دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ہی خودسر حکومت میں ہے۔ جب کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اتحادی طورپر حکومت میں شامل ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی ملک کی ۲۸ ریاستوں میں سے ۱۶ ریاستوں میں اس کی خودسر حکومت قائم ہے۔ اور ۴ریاستوں میں بی جے پی اتحادی طورپر حکومت کا حصہ ہے۔ اس تناسب سے اگر دیکھا جائے تو کانگریس کی حیثیت بی جے پی کے سامنے محض ایک علاقائی پارٹی کی ہی رہ گئی ہے۔ کیونکہ ملک کی عام آدمی پارٹی نے بھی اب دہلی اور پنجاب دو جگہوں پر وزارت علیہ کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دہلی مرکز کے زیر انتظام ریاست ہے۔ لیکن حکومتی اعتبارسے دیکھا جائے تو واضح طورپر یہ کہا جائے گا کہ عام آدمی پارٹی نے دو جگہوں پر اپنی حکومت بنا لی ہے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ بڑی قومی پارٹی کے طورپر آج بھی ملک میں دو ہی پارٹیاں ہیں، ایک بی جے پی اور دوسری کانگریس۔ لیکن عملی طورپر کانگریس کو ملک کی دوسری بڑی قومی پارٹی کہنا لفظ اکثریت کا گلا گھونٹنا ہوگا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کانگریس اپنے وجود اور بقا کی کھسکتی ہوئی رسی کو کمزور طریقے سے پکڑے ہوئے ساقط کھڑی ہے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کانگریس اپنے وجود کی کھسکتی رسی کو مضبوطی سے اپنی اور کھینچنے کی طرف گامزن رہتی۔ لیکن افسوس کہ آج یہ پارٹی اپنے حرکت وعمل میں کافی سست، حکمت وعملی میں ناکام، عوامی رابطے سے منقطع نظر آرہی ہے۔ کانگریس پارٹی کا یہ حال ہے کہ اس کے اکثروبیشتر لیڈران سستی اور کاہلی کے عمیق گڈھے میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ کچھ لیڈران اعلیٰ کمان سے بےزار ہیں اورشکوہ گری میں مشغول ہیں۔
ملکی سطح پر اگر دیکھا جائے تو متحرک اور فعال کانگریسی لیڈر کے طورپر شاید ہی کوئی نام سامنے آئے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریسی لیڈران میں قابلیت یا سیاسی فکروشعور کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن شاید اس پارٹی کے لیڈران یہ بھول گئے ہیں کہ قابلیت یا سیاسی فکروشعور اور تجربہ اسی وقت کسی کی کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں جب اسے عمل میں لایا جائے۔
پچھلے تین چار برسوں میں کسی بھی انتخاب میں کانگریس کی صحیح حکمت عملی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ محض دو ریاستوں تک ہی سمٹ کررہ گئی ہے۔ اور مرکز میں بھی بہ مشکل حزب اختلاف کا کردار ملا ہے۔ ورنہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ابھی ملک اپوزیشن کے کردارسے خالی ہے۔
آخر کانگریس کی اس زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور لمبی مدت تک مرکز کی باگ ڈور سنبھالنے والی پارٹی یکایک اپنی ساری توانائی کیوں کھو رہی ہے؟ ایسے کچھ سوالوں کے جوابات اورکانگریس کی زبوں حالی کے کچھ اسباب کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کوئی اور یا ملک کی عوام کی بے اعتنائی نہیں بلکہ کانگریسی اعلیٰ کمان کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
راجیہ سبھا ۲۰۲۲کی ٹکٹ میں غلط فیصلہ:
ابھی حال ہی میں کانگریس نے اپنے کوٹہ سے ۱۰ لیڈران کو راجیہ سبھا بھیجا ہے۔ جو بالکل ضروری اور اچھی بات ہے۔ جس پارٹی کو جتنا کوٹہ اور جتنی سیٹیں میسر ہوتی ہیں وہ اپنے حساب سے اور پارٹی کی فلاح وبہبود، ماضی میں پارٹی کے تئیں امیدوار کی بہتر کاکردگی اور مستقبل کی بہتر امید کے ساتھ لائق وفائق افراد کو راجیہ سبھا بھیجتی ہے۔ اس بار کانگریس نے ۱۰ لوگوں کو راجیہ سبھا کے لئے منتخب کیا ہے۔
ریاست امیدوارکا نام امیدوار کا آبائی وطن اور میدان عمل
چھتیس گڑھ راجیو شکلا کانپور یوپی
؍؍؍؍ رنجیت رنجن پیدائش مدھیہ پردیش اور سکونت بہار
ہریانہ اجے ماکن دہلی
کرناٹک جے رام رمیش کرناٹک
مدھیہ پردیش وویک تنکھا مدھیہ پردیش
مہاراشٹر عمران پرتاپ گڑھی پرتاپ گڑھ یوپی
راجستھان رندیپ سرجے والا ہریانہ
؍؍؍؍ مکل واسنک مہاراشٹر
؍؍؍؍ پرمود تیواری پرتاپ گڑھ یوپی
تمل ناڈو پی چدمبرم تمل ناڈو
چھتیس گڑھ سے دو افراد راجیو شکلا اور رنجیت رنجن کو منتخب کیا گیا ہے جب کہ یہ دونوں اس ریاست کے باشندہ نہیں ہیں۔اسی طرح عمران پرتاپ گڑھی کا تعلق اور میدان عمل یوپی ہے لیکن انہیں مہاراشٹر سے ٹکٹ ملی۔وہیں مہاراشٹر کے مکل واسنیک کو راجستھان سے ٹکٹ ملی۔ پرمود تیواری یوپی سے ہیں اور انہیں راجستھان کی سیٹ ملی، رندیپ سرجے والا جو کانگریس کے ترجمان ہیں ان کا تعلق بھی راجستھان سے نہیں بلکہ ہریانہ سے ہے۔ جے رام رمیش، وویک تنکھا اور پی چدمبرم کو چھوڑ کر ساتوں منتخب شدہ امیدوار دیگر ریاستوں کے ہیں۔ ایسے میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں با ہری امیدواروں کو ٹکٹ دی گئی ہے کیا ان ریاستوں میں کانگریس کے لیڈران نہیں تھے۔کیونکہ جس ریاست سے جس امیدوار کا تعلق ہوتاہے یاجہاں اس امیدوار کا میدان عمل ہوتا ہے وہاں کی عوام ذہنی، جذباتی اور عملی طورپر اس لیڈر سے مربوط ہوتی ہے۔ وہاں کی عوام نہ چاہتے ہوئے بھی وقت پڑنے پر اس لیڈر کے لئے اپنی محبت نچھاور کرتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی لیڈر دیگر ریاست میں جاتا ہے تو اسے وہاں کی عوام کا پیار نہیں مل پاتا جس کی وہ امید یا دعویٰ کرتا ہے۔ اس طرح اس لیڈر کے ذریعہ اس ریاست کی عوام سے جڑنے کا پارٹی کا مقصد مفقود ہوجاتا ہے۔ کانگریس نے بھی اس بار کے راجیہ سبھا انتخاب میں اپنی دس سیٹوں کے امیدواروں کو لے کر یہی غلطی کی ہے۔ اب بھلا بتائیے! عمران پرتاپ گڑھی مہاراشٹر میں کیا تیر مار لیں گے؟ اسی طرح دیگر لیڈران جو اپنی ریاست سے پرے دیگر ریاستوں سے راجیہ سبھا جائیں گے ان سے وہاں کی عوام کا کیا فائدہ ہوگا۔
اقلیتوں کو حصہ داری سے محروم رکھنا:
اس بار کانگریس نے کی اور سے راجیہ سبھا کے دس افراد میں سے فقط ایک نام عمران پرتاپ گڑھی کا ہے جو اقلیتی (مسلم) طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دس میں سے ایک یعنی ۱۰ فیصدی حصہ داری مسلمانوں کو کانگریس نے دی ہے۔ اور جب وقت انتخاب کا آتا ہے تو مسلمان جی جان سے کانگریس کے لئے تگ ودو کرتے ہیں۔ اور کانگریس بھی دعوی کرتی نہیں تھکتی کہ ہم مسلمانوں کے مسیحا ہیں۔ کانگریس اپنے مسیحائی کے دعوی میں گرچہ ناکام رہی ہے لیکن مسلمان اپنے تگ ودو میں کامیاب رہتے ہیں اور اپنا ۹۰ سے ۹۵ فیصد پارلیمانی ووٹ کانگریس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ تو کیا کانگریس کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ کم از کم مسلمانوں کو بھی اس کی شرح آبادی کے اعتبارسے حصہ داری دے۔ کم از کم دو مسلم امیدواروں کو تو راجیہ سبھا بھیجنا چاہئے تھا۔ یہاں پر بھی کانگریس نے اپنی غلط حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔
لیڈران کو توجہ نہ دینا:
ابھی حال ہی میں ملکی سطح پر مشہور ، سیاست اور قانون کے ماہر کپل سبل جو کانگریس کے پرانے لیڈر ہیں انہیں بھی کانگریس کی طرف سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان جیسے پرانے اور تجربہ کار لیڈروں کی کانگریس کو ضرورت تھی۔ وہیں آج ہی ۲ جون کو ایک جواں سال او رمتحرک سیاسی لیڈر ہاردک پٹیل نے کانگریس کو چھوڑ کر بھاجپا کا دامن تھام لیا ہے۔ اب ایسے وقت میں ہاردک پٹیل جیسے نوجوان لیڈر کا اس برے وقت میں پارٹی چھوڑنا کانگریس کے لئے افسوس ناک امر ہے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ہاردک نے کن وجوہات کی بنا پر پارٹی چھوڑی ہے۔ کانگریس کو چاہئے تھا کہ ہاردک کو اعتماد میں رکھتی۔ اور جب دیگر ریاستوں کے لیڈران کو دیگر ریاستوں سے ہی راجیہ سبھا بھیجنا تھا تو کانگریس کے ایک بڑے لیڈر طارق انور جن کا تعلق بہار سے ہے انہیں بھی کسی ریاست سے راجیہ سبھا بھیجا جانا چاہئے تھا۔کم از کم عمران پرتاپ گڑھی سے تو سیاسی اعتبار سے طارق انور کا قد بڑا تھا۔ اس کے علاوہ شکیل احمد جیسے پرانے لیڈران بھی یہاں موجود تھے۔ ان سب معاملوں میں بھی کانگریس کی غلط پالیسی جھلکتی ہے۔
ریاستی قیادت کی ذمہ داری میں غلطی:
یوں تو کئی ریاستوں میں کانگریس نے جن لوگوں کو اپنی پارٹی کی ذمہ داری دی ہے وہ افراد وہاں کے لئے موزوں نہیں رہے ہیں۔ خاص طورپر بہار میں کانگریس نے ادھر کچھ سالوں میں جن جن لوگوں کو بھی ریاست کی باگ ڈور تھمائی ہے وہ پوری طرح اپنی ذمہ داری کی انجام دہی میں ناکام رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے بہار میں منہ کی کھائی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال یوپی میں بھی رہا۔ وہیں بنگال میں بھی کانگریس نے ریاستی ذمہ داری میں غلطیاں کی ہیں۔ جس کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں پچھلے کچھ انتخابات میں کانگریس کو نفع کے بجائے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ابھی حال ہی میں کانگریس نے راجستھان میں اپنا ایک قومی تشویشی اجلاس کیا تھا۔ جس میں یہ طے پایا تھا کہ ہر طبقہ کو اس کے شرح کے اعتبار سے پارٹی میں حصہ داری دی جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں پڑتا۔ کانگریس کی طرف سے کوئی بھی منظم تنظیمی کام نہیں ہوپا رہا ہے۔ عوامی رابطہ مہم میں بھی کانگریس پوری طرح سست پڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں کانگریس کا کامیابی کی طرف لوٹنا ناممکن تو نہیں لیکن بڑا مشکل لگ رہا ہے۔ افسوس تو تب ہوتا ہے کہ کانگریس کے اعلی کمان جب چنتن شیور سے خطاب کرتے ہیں تو ۴۵ منٹ میں سے ۳۵ منٹ انگریزی میں خطاب ہوتا ہے اور صرف دس منٹ ہندی اردو میں۔ ایسے میں عوام کو ان اعلیٰ کمان کی بولیاں کیسے سمجھ میں آئیں گے۔ او رجب تک عوام ان کی باتوں کو سمجھے گی نہیں تب تک ان سے جڑنا مشکل ترین امر ہے۔