(ترہت نیوزڈیسک)
بہار بلدیاتی انتخابات 2022 کے دوسرے اور آخری مرحلے کے لیے مشرقی چمپارن، موتیہاری میونسپل کارپوریشن اور ارے راج نگر پنچایت میں بدھ کو پرامن طریقے سے پولنگ مکمل ہوگئی۔ ووٹروں نے ای وی ایم میں تمام امیدواروں کی قسمت پر مہر لگا دی ہے۔ ای وی ایم میں بند قسمت کا تالا 30 دسمبر کو کھلے گا، پھر پتہ چلے گا کہ کون بنا راجہ اور کتنے رہ گئے رنک۔ کس کے سر چڑھا تاج اور کس کے پاؤں تلے کھسکی زمین۔ واضح رہے کہ موتیہاری میونسپل کارپوریشن کے 46 وارڈوں کے وارڈ ممبران کے علاوہ موتیہاری کارپوریشن کے میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ جس کے لیے 215 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔انتخابات کے دوران تمام پولنگ بوتھ پر انتظامیہ نے کڑے تحفظاتی انتظامات کئے تھے۔
خراب موسم کی وجہ سے موتیہاری میونسپل کارپوریشن میں صرف 51.45 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی جبکہ ارے راج میں پولنگ کا فیصد 65.53 رہا۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ بلدیاتی انتخاب پارٹی سطح پر نہیں ہوا، لیکن 1 سے 3 نمبر کے تمام امیدواروں کو پردے کے پیچھے سے کسی نہ کسی پارٹی یا بڑے لیڈروں کی حمایت ضرور حاصل ہوئی۔
موتیہاری میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدے کی لڑائی اس بار کافی دلچسپ نظر آئی۔ ایک ہی پارٹی کے دو بڑے لیڈروں نے دو مختلف امیدواروں کو اپنی حمایت دی تھی۔ ضلع کے ایک سینئر اور مضبوط لیڈر رادھا موہن سنگھ نے پردے کے پیچھے سے سابق چیئرمین پرکاش استھانہ کو اپنی حمایت دی تھی۔ اور ڈھاکہ کے ایم ایل اے پون جیسوال نے دیوا گپتا کے لیے اپنی جی جان لگایا۔ رادھا موہن سنگھ اور پون جیسوال دونوں بھاجپا لیڈر ہیں، ایک سابق مرکزی وزیر اور موجودہ لوک سبھا ایم پی، دوسرا دو بار کے ایم ایل اے۔ دونوں نے بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے دوران اپنے اپنے امیدواروں کے لیے کافی میٹنگیں کیں۔ ایک ضلع میں اپنی سیاسی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسرا اس پرانی سیاسی بالادستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ پون جیسوال دیوا گپتا کے لیے ویش برادری کو متحرک کرنے میں مصروف تھے۔ چنانچہ رادھا موہن سنگھ برہمن، راجپوت سمیت دیگر بڑی ذاتوں کو پرکاش استھانہ کے لیے متحد کر رہے تھے۔ اب کون کامیاب ہوتا ہے، اس کا فیصلہ 30 دسمبر کو ہی ہوگا۔ لیکن پولنگ کے بعد فیصد کے اعداد و شمار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پرانے میئر کا پلڑا بھاری ہوگا، کیونکہ پولنگ فیصد میں کمی تبدیلی کی علامت نہیں ہے۔
کچھ لوگ بی جے پی کے دو لیڈروں کی اس لڑائی کو وجود کی لڑائی بھی مان رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر رادھا موہن سنگھ کے حمایت یافتہ کو کامیابی ملتی ہے تو پون جیسوال کے لیے موتیہاری کی سیاست مشکل ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر پون جیسوال کی محنت رنگ لائی تو رادھا موہن سنگھ کا قلعہ گرنے کا خدشہ ہے۔ اب وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کون کس پر غالب رہتا ہے۔