(ثناء اللہ صادق تیمی )
جلسوں کو ہم نے ایسی شکل دے دی ہے کہ وہ واقعی بہت سارے وابستگان کے لیے “کاروبار” کا درجہ ہی رکھتے ہیں ۔آپ سماجی سطح پر دیکھ لیں کہ زیادہ تر کون لوگ ہیں جو بڑے بڑے جلسوں کے لیے اتاؤلے رہتے ہیں اور آپ کو ساری سچائی سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ دیندارنو جوانوں کی فوج نہیں ہوتی ، یہ وہ ہوتے ہیں جن سے خير کی توقع باندھنا آسان نہيں ۔ بڑے بڑے یہ جلسے ان میں سے بعض کے لیے نفع بخش کاروبار تو بعض کے لیے انٹرٹینمینٹ کا اچھا ذریعہ ہوتے ہیں اور کچھ لیے تو خیر کسی اور مقصد کے لیے موسم بہار !! والعاقل تکفیہ الاشارۃ۔
وہيں بعض مقررین کا حال بھی زيادہ مختلف نہیں ہوتا۔ میں ایسے کئی “مقررحضرات ” کو جانتا ہوں جو سرکاری ملازم ہیں ۔ ان کے پاس زیادہ چھٹیاں نہيں ہوتیں لیکن جلسوں کے منافع انہیں اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔چنانچہ وہ اپنی اصل ملازمت میں خیانت سے کام لیتے ہيں ۔ اگر وہ کسی اسکول میں ماسٹر ہیں تو ہیڈ ماسٹر سے سیٹنگ کرلیتے ہیں ، انہيں اپنی “کمائی ” کا کچھ حصہ دے دیتے ہيں اور پھر جلسوں کی ” نعمتوں ” سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ایک صاحب سے حرم مکی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں اپنے اس” کارنامے” کو بیان کیا ، میں نے جب انہيں حلال وحرام کے تناظر میں سمجھانےکی کوشش کی تو ان کی پریشانی دیکھنے کی چيز تھی ۔میں نے ایک تحریر بعنوان” دعوت کے لیے پیشے میں خیانت” اسی موقع سے لکھی تھی۔
کئی ایسے “مقررین” ہیں جن کے لیے یہ بڑے بڑے جلسے واقعی کاروبار ہیں ۔ وہ کہیں اور “مصروف” نہیں ہوتے لیکن جب ان سے رابطہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ” ڈائری ” دیکھ کر آپ کو بتائیں گے ۔پھر کسی مجہول مصروفیت کا حوالہ دیتے ہیں ، کبھی کبھار تو کسی دوسرے جلسے میں شرکت کی مصروفیت کا حوالہ دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے اور پھر جب ” موٹی رقم ” پر سودا طے ہوجاتا ہے تو اپنی منظوری دے دیتے ہیں !!!
کمال یہ بھی ہے کہ ایسے مقررین کی اکثریت ایسی ہے جنہیں کوئی سمجھدار جماعت ” سنجیدہ علماء” کی فہرست میں نہیں رکھ سکتی ۔ان میں سے زيادہ تر وہ ہیں جن کے بارے میں جلسے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے ؛
تماشہ دکھا کر مداری گيا
دعوت و تبلیغ کے اس سیٹ اپ سے جڑے بہت سے معتبر علماء بھی ہیں، ان کی اکثریت کوئی ڈیمانڈ نہيں کرتی ، جو مل گيا رکھ لیتی ہے اور در اصل انہیں کے پہنچنے سے قرآن وسنت کی کچھ باتیں بھی ہوجاتی ہيں اور عوام میں سے جو لوگ واقعی اچھے مقصد سے آتے ہیں ، انہیں فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے ۔لیکن جلسے کی اس کاروباری نوعیت سے سب سے زيادہ نقصان انہيں بے چاروں کا ہوتا ہے ۔یہاں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ اپنے ایم- اے یا ایم فل کے زمانے میں جھاڑکھنڈ اکسپریس سے دھنباد آرہا تھا ، میری بوگی میں کئی اور نوجوان بیٹھے ہوئے تھے ، بعد میں کھلا کہ وہ سب اہل حدیث تھے، جامتاڑا اور دیوگھر سے ان کا تعلق تھا، جہاں ایسے بڑے بڑے جلسے بکثرت ہوتے ہیں، کئی غیر مسلم حضرات بھی تھے ، اسلام اور ہندوستان کے تناظر میں باتیں ہورہی تھیں ۔ کچھ دیر بعد ان نوجوانوں میں سے ایک نے پوچھا : حضرت! آپ پروگرام میں جاتے ہیں ؟ میں نے کہا : جی ، اگر فرصت میسر رہی تو جاتا ہوں ۔ کہنے لگے : کتنا چارج کرتے ہیں ؟ میں نے کہا : آنے جانے کا خرچ لیتا ہوں ، کیوں کہ ابھی اس قابل نہيں ہوں کہ خود سے آنا جانا کر سکوں ۔میرے جواب سے ان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا جیسے انہيں لگ گيا ہو کہ مولانا بلانے پر نہيں آئیں گے یا پھر یہ ” ویسے بڑے مقرر” نہيں ہوں گے !!!
میں جب اس سیٹ اپ کی مخالفت کرتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ “کاروبار ” والوں کو تکلیف ہوگی ہی لیکن جن کا مقصد واقعی اصلاح سماج ہے وہ ضرور خوش ہوں گے کیوں کہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس سیٹ اپ کی اصلاح بہت ضروری ہے ۔آپ یقین جانیں کہ اگرراتوں رات چلنے والے بڑے بڑے جلسوں کو ہم نے چھوٹے چھوٹے پروگراموں میں تبدیل کرلیا تو ہم معتبر علماء سے استفادہ کی راہ بھی نکال پائیں گے اور کم خرچ میں زيادہ پائیدار نتائج بھی حاصل ہوں گے ۔ساتھ ہی اگر مکتب میں اچھے مولانا ہوں اور مسجد کے امام باصلاحیت ہوں تو باضابطہ اصلاح سماج کا منظم طریقہ سے وہ کام ہوگا جس کے مثبت اثرات ان شاءاللہ نظر آئیں گے ۔