Monday, September 16, 2024

محترم جناب فیصل رحمانی کی خدمت میں چند گذارشات

(ترہت نیوز ڈیسک)

امیرشریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب برداللہ مضجعہ کی دفات حسرت آیات کے بعد سے ہی نہ جانے کیا کیا گل کھل رہے ہیں. کچھ دوستوں کے ذریعے امارت شرعیہ اور خانقاہ رحمانی دونوں کی جگ ھنسائی ہورہی ہے. موافق و مخالف تحریروں سے اذہان پراگندہ اور طبائع منتشر ہیں اور دونوں ہی اداروں پہ آوازیں کَسے جانے کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے ……ایسے میں کسی بھی شریف انسان کے لیے خاموش تماشائی بنے رھنا اور آگے بڑھ کر سیلاب بلاخیز پہ بند نہ باندھنا یقیناً سمجھ سے بالاتر ہے

محترمی! آپ تو باضابطہ ایک سجادہ نشیں ہے اور وہ بھی ایک تاریخی اور عظیم خانقاہ کے ذمہ دار ہیں….اب اگر خانقاہ رحمانی کے تعلق سے کوئی منفی تبصرہ آئے… یا… رحمانی گروپ اور رحمانی گینگ…. کے عنوان سے خانقاہ کو موضوع بنایا جائے تو کیا آپ کو تکلیف نہیں پہونچتی ہے؟
اسی طرح امارت شرعیہ جسے خود آپ کے پڑدادا نے اپنی آہ سحرگاہی سے سینچا ہے اور جسے آپ کے دادا نے اپنے خون جگر سے ہرا بھرا کیا ہے اگر اسی امارت کے سلسلے میں لکھنے والے یہ لکھیں کہ اس پہ…. عقابوں کا تسلط ہے. مافیاؤں کا قبضہ ہے اور غیر دستوری اقدامات سے یہ سارے متسلطین اسے لوٹ کھسوٹ رہے ہیں…. تو کیا آپ کا قلب و جگر چھلنی نہیں ہورہا ہے؟


راقم سطور کا حسن ظن یہی ہے کہ جس طرح غیر متعلق افراد کو موجودہ حالات سے سخت اضطراب ہے اسی طرح آپ بھی بے چین ہونگے بلکہ آپ کی بے چینی بدرجہا زائد ہوگی کیونکہ اسی کے ضمن میں آپ کی وضع قطع بھی زیرِ بحث ہے. آپ کا ماضی بھی موضوع سخن ہے اور پھر اس تارِ مضراب کو چھیڑتے ہوئے تان ٹوٹنے لگتی ہے امیرسابع کے اقدامات پر…. ایسے میں آپ کا اندرونی اضطراب کیوں نہیں زائد ہوگا؟
گرامی قدر! میرا حسن ظن اگر واقعی ہے تو للہ فی اللہ آپ سے گذارش ہے کہ فوراً سے پیشتر آگے بڑھئے. منظر عام پہ آئیے اور کسی دوسرے تیسرے کو درمیان سے ھٹا کر خود ہی ساری کمانیں سنبھال لیجئے….. حاشیہ نشینوں کو آپ کا مفاد ہرگزعزیز نہیں وہ تو محض اپنے مفاد کی خاطر آپ کے کاندھے پہ بندوق رکھے ہوئے ہیں . انھیں تو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور انھیں کی تحصیل یا بقا کے لیے آپ کی خاندانی وجاھت استعمال کررہے ہیں


آپ ذرا یہ بھی سوچئے کہ امیرشریعت کے لفظ میں کس قدر تقدس ہے اور اس کی عظمت کا تقاضہ کیا ہے؟ کیا امیرشریعت بننے کی خواہش و طلب رکھنا بالخصوص آپ جیسے عظیم خانوادہ کے لئے کسی طرح بھی زیبا ہے؟ کیا امارت شرعیہ جو کہ ایک دینی ادارہ ہے اسے دنیوی ادارہ بنتے ہوئے آپ کا خاندانی ضمیر برداشت کرلے گا؟ اور کیا اس ادارہ کا سرپرست و سربراہ اگر ماہر شرع کے بجائے کسی دنیوی لیکچرار کو بنادیا جائے تو آپ اسے سہہ لیں گے؟……. میرا حسن ظن یہی ہے کہ یقیناً ہر ایک کا جواب آپ کے یہاں بھی….. نہیں….. میں ہوگا….. تو پھر آخر یہ کیسا گھناؤنا کھیل ہے کہ امیرشریعت کے لئے امیدواری کی شرط لگائی گئی ہے….؟ بھلا امیرشریعت بھی کہیں امیدوار ہوا کرتا ہے؟ یہ تو سیاسی الیکشن کا طریقہ ہے کہ اپنا نومینیشن داخل کیا جائے. اپنی امیدواری جتلائی جائے اور زیادہ سےزیادہ حمایتیوں کو اکٹھا کیا جائے جبکہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے بالخصوص بزرگانِ دین کے یہاں تو حب جاہ اور طلب منصب کے جراثیم ہی مارنے کی ریاضت ہوتی ہے پھر امیرشریعت کہلانے کا حقدار وہ کیسے ہوسکتا ہے جو خود ہی شریعت کا پاسدار نہ ہو؟ اور ایسے شخص کی سمع و طاعت کیسے ہوسکتی ہے جو اس باوقار عہدہ کے لئے سیاسی ہتھکنڈے کا روادار ہو؟


آپ کے بعض حاشیہ نشیں چونکہ سیاسی گلیاریوں کے رہ نورد ہیں اس لیے ان کا دماغ چلتا ہے تو محض سیاسی چلتا ہے. ان کی سوچ کا محور اگر کچھ ہے تو صرف دنیا کے ارد گرد ہے اور ان کی کوئی پلاننگ ہوتی ہے تو فقط دنیوی نقطہ نگاہ سے ہوتی ہے اور پھر ان کا شاطر دماغ اور تشقیقی زبان اسے آپ کے سامنے اس انداز میں پیش کرتی ہے کہ گویا یہ بھی اسلام ہی کا حصہ ہے اسی لیے عظیم نسبت رکھنے والا آپ جیسا فرد بھی دھوکہ کھاجاتا ہے
گرامی قدر! امارت شرعیہ ہم اہل بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ ہی کا مرکزی ادارہ نہیں ہے بلکہ بقول مولانا علی میاں ندوی پوری ملت ھندیہ کا عظیم سرمایہ ہے اسی لئے راقم سطور کی گذارش ہے کہ خدا را امارت شرعیہ کا تحفظ کیجئے. اس کو منتشر ہونے سے روک لیجئے اور خود ہی آگے بڑھ کر کسی اور کو امیرشریعت بنائے جانے کی وکالت کیجئے تاکہ آپ کی خاندانی روایت کا بھی اعادہ ہو اور آپ کی قدر ومنزلت بھی دوچند ہوسکے. یاد رکھئے کہ اگر عین وقت پر آپ نے کچھ ایسا ہی کیا تو اس وقت کی دانائی پر مجبوری کا بھی لیبل لگ سکتا ہے جبکہ آج کل کے ایسے اقدامات کو نہ صرف یہ کہ آپ کی دانشمندی کہا جائے گا بلکہ کسی دوسرے کے لئے اپنے آپ کو فی الحال الگ کرلینے سے تعریف و توصیف اور عظمت و منقبت کے پھریرے ہر سو لہرانے لگیں گے


محترمی! ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ جمیعۃ علماء کے دونوں دھڑوں نے بالاتفاق اپنے ایک امیر کا اعلان کیا ہے اور کسی طرح کا کوئی اختلاف بھی سننے کو نہیں ملا ہے جبکہ وہاں تو نقطہ اتحاد ہی میں اختلاف ہے اس کے باوجود امیر الھند کا متفقہ اعلان آخر ہمیں کیا سبق دیتا ہے؟یہی نا؟ کہ لفظ امیرالھند ہو یا امیرشریعت. یہ ایسا باوقار لفظ ہے جس میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں. اور کسی طرح کا منفی تبصرہ اس لفظ کے لئے موزوں نہیں ہے اس لیے امارت شرعیہ کے متعلقہ افراد کو بھی اپنی بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے اور اب تک جوکچھ بھی نازیبا اقدامات ہو چکے ہیں ان سب کو کالعدم کرکے ایک متفقہ امیرشریعت کو منتخب کرنا چاھئے جس کے لئے سب سے پہلے آنجناب کو اپنا ایثار دکھانا ہوگا اور آگے آکر سبھوں کے زبان و قلم بند کرنے ہونگے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ بہار میں آج بھی بَہار ہے اور امارت شرعیہ آج بھی سبھوں کا متفقہ عظیم سرمایہ ہے……

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles