(عبدالمبین)
بہت ساری تنقیدوں اور معدود چند تعریفوں کے ساتھ بالآخر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی “بھارت جوڑو یاترا” اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ راہل گاندھی کے اس یاترا سے کانگریس کو آنے والے دنوں میں کتنا فائدہ پہنچے گا، اس یاترا کے ذریعہ راہل گاندھی نے بھارت کے کتنے لوگوں کو متحد کیا ہے یا پھر بھارت میں پھیل رہی مذہبی نفرت کی کھائی کو راہل نے اپنے اس سفر سے کتنا پاٹا ہے یہ سارے سوالات ابھی بھارت کے لوگوں بالخصوص سیکولر ذہنیت کے سامنے ہے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ کسی بھی منفی کوشش کا ثمرہ بروقت ملتا ہے اور اس کے نتائج بھی بڑی جلدی سامنے آتے ہیں، لیکن مثبت کاوشوں کے نتائج سامنے آنے میں ذرا دیر لگتی ہے، اور مثبت کوششوں کا پھل بھی دیر سے ہی آتا ہے لیکن وہ پھل مٹھاس بھرا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے سات ستمبر۲۰۲۲ کو جنوبی انڈیا سے ’’بھارت جوڑو یاترا کی شروعات کی تھی۔ ہاڑ کنپا دینے والی ٹھنڈ، بارش اور برفیلی ہواؤں سے بے پرواہ، اپوزیشن اور تنقید نگاروں کی تنقید کی پرواہ کئے بنا بے خوف وخطر اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ راہل گاندھی نے اپنی یاترا پرجوش انداز میں جاری رکھا۔ چودہ ریاستوں سے ہوتے ہوئے، 136 دنوں میں 4000 کلومیٹر کا سفر طے کر کے راہل گاندھی کی یاترا سرینگر پہنچی۔ جہاں راہل گاندھی نے سرینگر میں پرچم کشائی کے ساتھ اپنے اس یاترا کا اختتام کیا۔
سری نگر پہنچنے سے قبل راہل گاندھی نے بتایا کہ انھیں متنبہ کیا گیا تھا کہ پیدل چلنے سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ مقامی انتظامیہ نے انھیں آگاہ کیا تھا کہ ان پر گرینیڈ بھی پھینکا جا سکتا ہے۔ یعنی انتظامیہ تحفظ فراہم کرنے کے بجائے راہل گاندھی کو ہراساں کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ لیکن چٹانی عزم کے ساتھ راہل گاندھی سرینگر پہنچے اور اپنے سفر کو مکمل کیا۔
کانگریس پارٹی کے مطابق راہل گاندھی کے اس سفر کا مقصد ’بھارت کے لوگوں میں پھیل رہی مذہبی منافرت کو محبت میں بدلنا، انڈیا کو متحد کرنا اور ساتھ مل کر ملک کو مضبوط کرنا تھا۔
اپنے اس پانچ مہینے کی یاترا کے دوران جگہ جگہ راہل گاندھی نے بھیگتے ہوئے اور سرد ہواؤں کے بیچ لوگوں سے خطاب کیا۔
راہل گاندھی نے اپنے یاترا کے دوران متعدد بار وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بے روزگاری، مہنگائی، بدعنوانی اوربھارت کے علاقے میں چین کے دخل کے موضوعات پر بات کی۔ راہل نے ملک میں مذہبی سیاست پر تنقید کیا، انہوں نے کہا کہ آج ملک میں مذہب کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے۔ بی جے پی والے اقتدار میں بنے رہنے کے لئے ہندو مسلم کا نعرہ لگا کر ہندوؤں کے ذہن میں بلا وجہ مسلمان کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جمہوریت کا مکمل طورپر گلا گھونٹا جارہا ہے۔ اقتصادی طورپر بھارت کو کمزور تر بنا دیا گیا ہے۔ روزگار کے بجائے نوجوانوں کو مندر اور مسجد کے جھگڑوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ اس ملک میں انسانیت سسک رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کی شبیہہ خراب ہورہی ہے۔ چین بھارت کی طرف غاصبانہ انداز میں حاوی ہورہا ہے۔ لیکن حکومت صرف مذہبی زہرافشانی کے نت نئے ایجنڈوں میں مشغول ہے۔
یاترا کے اختتام پر راہل گاندھی کا بیان:
اپنے یاترا کے اختتام پر راہل گاندھی نے کہا کہ انھیں دیگر علاقوں کی طرح کشمیر میں بھی لوگوں کا بھرپور پیار ملا جہاں انھوں نے اپنے سفر کا اختتام کیا۔
اتوار کو سرینگر میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ انھیں ملک بھر سے زبردست مثبت رد عمل ملا ہے۔ ان کے مطابق ’اس یاترا کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس ملک کے لوگ اپنے ملک کے لوگوں کی اصل آواز سن سکیں۔
انھوں نے کہا: ’’ہمیں اس سفر کے دوران لوگوں میں مشکلوں کے سامنے ڈٹے رہنے کا جذبہ اور طاقت دیکھنے کو ملی۔ ہمیں کاشتکاروں اور ملک کے بے روزگار نوجوانوں کے مسائل سننے کا موقع ملا‘‘۔
نومبر 2022 میں راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ’’ میں اس یاترا کے ذریعے انڈیا کے لیے ایک متبادل نظریے کا بیج بونے کی کوشش‘ کررہا ہوں‘‘۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر اس جانب مزید کام کیا جائے تو حکمران جماعت بی جے پی کو بے اثر کیا جا سکتا ہے‘‘۔
راہل گاندھی کے اس یاترا میں لاکھوں لوگوں نے ان کے ساتھ شرکت کی۔ مارچ میں متعدد معروف شخصیات نے بھی حصہ لیا۔ عام عوام راہل کی ایک جھلک پانے اور ان کے ساتھ دو قدم چلنے کے لئے مضطرب نظرآئی۔ لوگوں نے والہانہ طورپر راہل گاندھی کا خیر مقدم کیا۔ اپنے اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے بار بار کہا کہ وہ ملک میں ’نفرت کے خلاف محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں‘‘۔
وہیں میڈیا کی بات کریں تو اکثروبیشتر ملکی میڈیا نے اس پورے یاترا کو یا تو اپنی توجہ کا مرکز ہی نہیں بنایا یا پھر کبھی اس یاترا کو دیکھا یا دکھلایا بھی تو تنقیدی انداز میں۔ میڈیا نے کبھی راہل کے ٹی شرٹ کی بات کی تو کبھی ان کی داڑھی تو کبھی جوتوں کی بات کی۔ بڑے بڑے مییڈیا ہاؤس نے اس پورے پانچ مہینے میں کبھی ایک دن بھی راہل گاندھی کے اس یاترا کے مقصد کا تذکرہ نہیں کیا، کبھی بھی میڈیا نے یہ نہیں کہا کہ راہل کے اس یاترا سے تھوڑا ہی سہی مثبت اثر ضرور پڑے گا۔ کبھی میڈیا نے عوام کی شکایت سنتے ہوئے راہل گاندھی کا ایک بھی ویڈو نشر نہیں کیا۔ افسوس کہ ایک آدمی سرد ہواؤں کے بیچ عوام کے مسائل جاننے کے لئے پیدل ان تک پہنچ رہا ہے اور عوام کی ترجمان میڈیا اسے ٹی شرٹ کا نیوژ بناکر دکھارہی ہے۔ اگر صحافت کا یہی معیار رہ گیا ہے تو خدا خیر کرے ان کا۔
ہاں معدود چند ملکی اور کچھ غیر ملکی میڈیا نے راہل کے اس یاترا پر غیر جانبدارانہ تحریر اور ویڈیو نشر کیا ہے۔ جو بلا شبہ صحافت کا صحیح آئینہ دار ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اس یاترا سے کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ تو اس کو لے کر راہل گاندھی اور کانگریس کے لوگوں نے صاف طورپر کہہ دیا ہے کہ اس یاترا کا مقصد کانگریس کو انتخابی فائدہ پہنچانا قطعی نہیں ہے۔ بلکہ اس یاترا کا مقصد عوام میں مثبت سوچ، صحیح فکر اور اتحاد بین المذاہب پیدا کرنا ہے۔ اور بلا شبہ راہل گاندھی نے اس یاترا کے ذریعہ قابل تعریف کام کیا ہے۔ راج شاہی ہو یا جمہوریت ہر دور میں عوام یہی چاہتی ہے کہ ان کا رہنما کبھی کبھار ہی سہی بنفس نفیس ان کے سامنے آئے، ان سے روبرو ہو اور عوام اپنے مسائل سے لیڈران کو باخبر کرنے کے لئے خط، ای میل یا الیکٹرانک ذرائع کا سہارا نہ لیں بلکہ آمنے سامنے بیٹھ کر ان سے اپنی پریشانیاں بیان کریں۔ اور آج راہل گاندھی نے عوام کی اس خواہش کی مکمل تکمیل کی ہے۔