کانگریس پارٹی کے پنجاب کے ریاستی صدر نوجوت سنگھ سدھو نے ابھی ابھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ اپنے ٹوئٹر کے ذریعہ سدھو نے یہ اطلاع عام کی ہے۔ سدھو نے کانگریس کی عارضی قومی صدر سونیا گاندھی کو اپنے ٹوئٹر کے ذریعہ اپنا استعفی بھیج دیا ہے۔ واضح رہے کہ ابھی ستمبر ماہ میں ہی سدھو نے پس پردہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی میں اہم رول ادا کیا تھا۔ کیپٹن امریندر سنگھ کا مستعفی ہونا اور چرن جیت سنگھ چنی کا وزیر اعلیٰ بننا بھلے ہی پارٹی کا فیصلہ رہا ہو لیکن پردے کے پیچھے سدھو کا رول کسی سے مخفی نہیں ہے۔
پنجاب کانگریس صر کے عہدے سے سدھو کے استعفی دینے کے بعد ملکی سطح پر ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ کانگریسی لیڈران سدھو کے استعفی پر انگشت بدنداں ہیں۔ وہیں ملکی سطح پر سدھو کے کانگریس میں آنے اور پھر پنجاب کی سیاست میں الٹ پھیر کرانے اور پھرلگے ہاتھوں مستعفی ہونے پر لوگ کانگریس کے اعلیٰ کمان کے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں کانگریس پے درپے جلدبازی اور کج فہمی سے فیصلے لے رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں یعنی دو ماہ قبل سدھو کو پنجاب کا صدر بنانا یہ جانتے ہوئے بھی کہ سدھو مستقل مزاج نہیں ہیں کانگریس کے فیصلے کے منفی پہلوؤں کو سامنا لایا پھر ایک ماہ بعد سدھو کے اشارے پر کانگریس نے امریندر سنگھ کو استعفی دینے پر مجبور کیا یہ کانگریس کا دوسرا غلط فیصلہ تھا اور اب دوغلط فیصلوں کا نتیجہ سدھو نےاپنا استعفی دے کر واضح کردیا ہے۔
سدھو نے اپنے استعفی نامہ میں لکھا ہے کہ: ‘‘ضمیر کو بالائے طاق رکھ کرپنجاب کی عوام کے مستقبل سے سمجھوتہ کرکے اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتا، لہٰذا میں اپنے عہدے سے استعفی دیتا ہوں، کانگریس پارٹی میں کام کرتا رہوں گا’’۔
سدھو کے اسعتفی کی وجہ ہوسکتا ہے پارٹی کو سمجھ میں آتی ہو لیکن ابھی تک عوام کو یہ وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ کیونکہ ابھی کچھ ہی ہفتوں قبل تک سدھو کو لے کر کانگریس نے یا کانگریس اور پنجاب کو لے کر سدھو نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا ہے جس سے معلوم ہو کہ واقعی سدھو کو پارٹی یا پھر پنجاب کے عہدے سے کوئی پریشانی ہو۔
دوسری طرف سدھو کے اس فیصلے کی وجہ سے یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ سدھو کی پنجاب سیاست کے تئیں اصل منشا کیا ہے؟ کیاسدھو کانگریس میں کسی اور کے اشارے پر آئے ہیں؟ کیا پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کسی اور کا مقصد تھا جسے سدھو نے سرانجام دیا ہے؟ کیا واقعی سدھو کا ظاہر اور باطن یکساں ہے؟
ایسے کئی سوالات ہیں جو آج ملکی سطح پر عوام کانگریس سے پوچھ رہی ہے۔ جس کا فی الوقت جواب شاید کانگریس کے پاس نہیں ہے۔ اب سدھو کے مستعفی ہونے سے کیپٹن کو اچھا موقع ہاتھ ملا ہے اور کیپٹن جا بجا یہ بیان بھی دے رہے ہیں کہ : ‘‘سدھو کا مزاج غیر مستقل ہے، سدھو پنجاب کی سیاست کے لئے کبھی موزوں تھے ہی نہیں۔’’ کیپٹن کے مستعفی ہونے کے بعد ان کے سدھو کے تئیں تلخ بیانی کو لوگوں نے ان کے غصے سے تعبیر کیا تھا لیکن آج کیپٹن کے بیان میں صداقت معلوم پڑتی ہے۔ کیونکہ سدھو نے اپنے کارناموں سے یہ واضح کردیا ہے۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی پر کانگریس نے کہا تھا کہ دلت وزیر اعلیٰ کا پنجاب میں ہونا کانگریس کے لئے سودمند ہوگا۔ اسی نظریے کے تحت پنجاب میں چرن جیت سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ اب سدھو کے اس چونکانے والے استعفی سے کانگریس کو پنجاب کے آنے والے انتخابات میں کتنا خسارہ ہوگا یہ ظاہر ہونے لگا ہے۔ سدھو کی وفاداری کا لبادہ اترتے ہی کانگریس پارٹی کے لئے پنجاب کا الیکشن لمحۂ فکریہ بنتا جارہا ہے۔ کانگریس کو اپنے فیصلوں میں مطانت اور سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
ابھی تک سدھو کے استعفی پر کانگریس کے اعلیٰ کمان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔ اس معاملے پر عوام کانگریس کے جواب کی منتظر ہے۔