Sunday, December 22, 2024

ہماری کشتی کا بادبان نہیں کوئی!

(تبلیغی جماعت کا غیر منظم انداز)
ڈاکٹر صغیر احمد (ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
گزشتہ تحریر میں ہم نے آپ کے سامنے وہ مسئلہ رکھا تھا جسے لے کر پوری اسلامی دنیا میں غم وغصہ کی لہر ہے۔ وہ مسئلہ تبلیغی جماعت کو لے کر سعودی عرب کا قابل مذمت بیان ہے۔ متعدد تحریری، تقریری اور ویڈیوز کے توسط سے سعودی عرب کا تبلیغی جماعت کو لے کر مذموم بیان اور مملکت سعودی میں تبلیغی جماعت پر مکمل پابندی کی ساری باتیں تقریباً ہر مسلمان کے کانوں میں جا پہنچی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر اپنے ملک میں تبلیغ اسلام کو لے کر جو پابندی عائد کی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے آج سے کئی برس پہلے بھی سعودی عرب نے تبلیغی جماعت کے عقائد، اس جماعت کے طریقۂ تبلیغ اور مہنج دعوت کو غلط قرار دیا تھا اور آج تک اسے غلط گردان رہا ہے۔
لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج تک تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے اپنے عقائد، طریقۂ تبلیغ ودعوت، اور طریقہ کار پر سعودی عرب یا دیگر لوگوں کے ذریعہ اٹھائے جارہے کسی بھی سوال کا جواب کیوں نہیں دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جماعت اپنی ان خامیوں کو سننا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتی یا پھر یہ کہ واقعی وہ خامیاں اس جماعت میں ہیں۔ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی کارکردگی، نہج اور طریقہ میں خامی ہونا یہ کوئی گناہ اور بڑی غلطی نہیں ہے۔ غلطی تب مانی جاتی ہے جب وہ جماعت، تنظیم یا فرد اپنی خامیوں کو درست کرنے کی سمت میں کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اور کچھ ایسا ہی معاملہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے۔
تقریباً دنیا کے اکثروبیشتر خطوں میں تبلیغی جماعت کے افراد پائے جاتے ہیں اورحتی الامکان تبلیغ اسلام کا کام کرتے ہیں۔ ہر اس ملک کا فرد تبلیغی جماعت میں آتا جاتا ہے جس ملک میں مسلمان ہیں۔ کوئی تین دن، کوئی چالیس دن، تو کوئی چار ماہ تک کے لئے دین سیکھنے کی غرض سے تبلیغی جماعت میں شامل ہوتا ہے۔ اور شامل ہوکر جماعت کے ہمراہ ملک یا بیرون ملک کا سفر کرتا ہے۔
آج بھی تبلیغی جماعت میں انتظامی اعتبارسے بہت سی خامیاں ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ مرکز نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے آنے جانے اور نکلنے یا شامل ہونے کا ریکارڈ درج ہے اور کچھ آمدوخرچ کا بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے شہروں یا قصبوں میں تبلیغی جماعت کے گروہوں کا ریکارڈ نہیں رہتا اور اگر کہیں رہتا بھی ہے تو محدود انداز میں۔ ایسی جگہوں کے لئے مرکز کو چاہئے کہ انہیں ہدایت دے کہ ملک کے ہر گوشے میں جہاں بھی تبلیغی جماعت کا چھوٹا یا بڑا دفتر موجود ہے وہاں سے نکلنے والی جماعت کا مکمل اندراج رکھے۔ اور ان جگہوں پر جماعت میں شامل ہونے کے لئے شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ ایک فارم بھی رکھا جائے تاکہ بحیثیت دستاویز اسے کسی بھی سرکاری افراد کے سامنے بوقت ضرورت پیش کیا جا سکے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی غلط شبیہہ کا فرد جماعت میں داخل ہوکر کوئی دہشت گردانہ یا تشدد پسندانہ یا پھر ملکی قوانین کے خلاف کوئی عمل کردے جس سے جماعت بدنام ہو جائے اس سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان افردا کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے۔ اور شاید اس جماعت کی ان ہی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعودی عرب نے بیان دیا تھا کہ اس جماعت سے دہشت گردی کا دروازہ کھلتا ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس جماعت کے افراد کا اب تک کوئی اس طرح کا ریکارڈ نہیں ہے اس لئے لوگوں نے سعودی کو لعن طعن کیا۔
اس جماعت کے متعلق ایک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک یہ جماعت جہاں سے وجود میں آئی ہے یعنی ہندوستان کے کسی سرکاری دفتر سے رجسٹرڈ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی اور ملک کی سرکاری رجسٹر میں اس کا کوئی اندراج ہے۔ کئی دہائیوں سے تبلیغ کی راہ پر گامزن اس جماعت کے لئے یہ افسوس نہیں تو اور کیا ہے کہ آج تک اس کا کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ اس جماعت کا کیا نظام ہے، اسے کب کس گاؤں اور قصبے میں جانا ہے وہاں کتنے دنوں تک ٹھہرنا ہے، اس کا سربراہ کون ہوگا اور اس قریہ اور قصبے میں اگر کوئی پیچیدگی آتی ہے تو وہاں کی انتظامیہ اس جماعت کے مسائل کے حوالے سے کس سے سوال جواب کرے گی اور کون اس کا مسئول ہوگا۔ افسوس کہ ایسی بہت ساری خامیاں ہیں جنہیں درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس پریشانی سے بچنے اور اس جماعت کو شفاف بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مرکز نظام الدین سے نکلنے والی ہر تبلیغی جماعت کے ہمراہ ایک رجسٹر اورایک ممبرسازی فارم ہو، اس فارم کے ساتھ شامل ہونے والے افراد کا شناختی کارڈ ہو جو یہ ثابت کرے کہ یہ فرد مناسب ہے اور اس کا تعلق فلاں گاؤں، یا فلاں ریاست اور فلاں ملک سے ہے۔ تاکہ اس فرد کے متعلق جو بھی معاملے سامنے آئیں اس کا حل اس کے گھر اہل خاندان اور گاؤں والے کرسکیں۔ اور اس فرد کے اچھے برے کاموں کا جوابدہ تبلیغی جماعت نہ ہو، حکومت اس فرد کے معاملے میں تبلیغی جماعت پر سوالیہ نشان نہ لگائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے دارالعلوم دیوبند نے (اس کا حوالہ دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود ہے) تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد احمد کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک مولانا سعد نے دیوبند انتظامیہ کو اس ضمن میں کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ یہ خالص دینی جماعت ہے لیکن اس جماعت کے افراد تو بہر حال آدمی ہی ہیں کوئی فرشتہ نہیں۔ ان کے حرکات واعمال اور بیانات وخطابات سے ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کے قوانین کی خلاف ورزی ہوجائے ایسے میں اس جماعت کے بیانات کے بارے میں بھی ایک واضح لائحہ عمل ہونا چاہئے کہ یہ جماعت کس طرح کا خطاب کرے گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت میں شامل کسی فرد نے حکومت یا ریاست کے پروٹوکول کے خلاف کوئی بیان دیا تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہوگا؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب اس جماعت کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی نظام ہی نہیں ہے اور جب تک یہ جماعت منظم انداز اختیار نہیں کرتی اسی طرح کوئی نہ کوئی ملک آئے دن اس کے خلاف کچھ نہ کچھ بیان بازی کرتا رہے گا۔
ویسے تو عالم اسلام کے پاس ہی کوئی نظم وضابطہ نہیں ہے۔ یہ ہم نہیں بلکہ مسلمانوں کی متعدد جماعتیں اس کی مثال ہیں۔ شیعہ مسلمان اپنے انداز میں اسلام کی تشریح کررہا ہے، تو بریلوی حضرات اپنے انداز میں، قادیانی، سنی، اہل حدیث غربۂ اہل حدیث غرض کہ ہر مسلم جماعت اپنے اپنے طریقہ سے اسلام اور احادیث نبویہ پر عمل کررہی ہے۔ ہر ایک جماعت کے اپنے امام ہیں اور اپنی الگ الگ مسلکی کتابیں ہیں جن پر وہ عمل کررہے ہیں۔ کوئی بھی جماعت اپنے لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی صحیح تعلیمات کی طرف کما حقہ دعوت نہیں دیتی۔ ان سب کے بیچ بھارت کے مسلمان کا پوچھنا ہی کیا یہاں تو سبھی گروہوں کے مسلمان ہیں۔ متعدد جماعتیں اپنے مسلکی منہج کی ترویج میں سرگرداں ہیں۔ کوئی کسی سے اپنے آپ کو ذرہ برابر بھی کمتر نہیں سمجھتا ہر کوئی اپنے آپ کو جنت کا داروغہ سمجھ رہا ہے۔ لیکن ہاں آج بھی بھارت کا مسلمان چاند دیکھنے سے لے کر تمام ارکان اسلام میں سعودی عرب کو ہی اپنا قبلہ سمجھتا آرہا ہے۔ سعودی عرب بلاشبہ تمام اسلامی دنیا کا قبلہ ہے وہ ہے خانہ کعبہ۔ لیکن یہ کیا تک ہے کہ اپنے سارے اسلامی معاملات میں ہم سعودی کو ہی قبلہ تسلیم کرتے رہیں۔ منجملہ طورپر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج پوری امت مسلمہ غیر منظم انداز میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی تفصیل اگلے قسط میں قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعی کروں گا انشا اللہ۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles