(تر ہت نیوز ڈیسک)
پچھلی کئی دہائیوں میں عدالتوں نے شدید مایوس کیا ہے, بالخصوص ہمارے آئینی حقوق کے بارے میں ان کے فیصلے نہایت حیرتناک رہے ہیں, الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں جب بابری مسجد کا مقدمہ چل رہا تھا, تو اس کی پیشیوں پر ہونے والی بحث کی اردو اخبارات کی رپورٹس پڑھ کر لگتا تھا کہ فریق مخالف گنگ ہوگیا ہے اور ہمارے وکلا نے لاجواب بحث کردی ہے, پھر جو ہوا وہ سب جانتے ہیں, وکلا شاندار بحثیں کریں یا نہ کریں ایک بات تو طے ہے کہ کرسی پے پیٹھے شخص کے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں اور ایجنسیز اس کے گھر بھی دستک دے سکتی ہیں, اور یہ.سب نہ بھی ہو تو بھی راجیہ سبھا کی سیٹ کسے بری لگتی ہے.
ہر معاملہ کو فوری طور پر عدالت لے جانا کوئی صحیح رویہ نہیں ہے, یہ آخری آپشن ہوتا ہے, اس لیے کہ اس میں ناکامی کے بعد کوئی راہ نہیں بچتی, کسانوں کے احتجاج میں حکومت نے کسانوں سے بارہا کہا کہ عدالت چلیے لیکن انھوں نے اس آپشن کو قبول نہیں کیا, کوئی اور عدالت چلا بھی گیا تو بھی کئی مہینے تک احتجاج کررہی کسان تنظیمیں عدالت کی پیشیوں میں حاضر نہیں ہوئیں, اب تک جو ہوا سو ہوا لیکن آئندہ کے لیے غور وفکر کی ضرورت ہے.