ڈاکٹر صغیر احمد (ایم۔بی۔بی۔ایس، ایم ڈی)
ملک کی قدیم ترین پارٹی کانگریس کے ۱۳۷ سالہ تاریخ میں ووٹنگ کے ذریعہ ہوئے چھٹے صدارتی انتخاب میں ملیکا ارجن کھڑگے نے اپنے حریف ششی تھرور کو یک طرفہ مقابلہ میں شکست دیتے ہوئے کانگریس کے قومی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ملیکا ارجن کھڑگے کی اس جیت پر کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی، راہل گاندھی، اراکین کانگریس اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے انہیں مبارکباد پیش کیا ہے۔ کانگریس کے صدارتی عہدہ کے لئے ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۲ کو ووٹنگ ہوئی جس میں دو امیدار کانگریس صدر کے لئے طبع آزمائی کررہے تھے۔ ایک ملیکا ارجن کھڑگے اور دوسرے ششی تھرور یہ دونوں ہی کانگریس پارٹی کے قدآور اور قدیم لیڈر ہیں۔ ۱۹؍اکتوبر ۲۰۲۲ کو ووٹنگ کے نتائج آچکے ہیں جس میں ملیکا ارجن کھڑگے کو کل ۷۸۹۷ ووٹ ملے ہیں اور ششی تھرور کو صرف ۱۰۷۲ ووٹ ملے ہیں۔ اب ملیکا ارجن کھڑگے سے کانگریس کو کافی امیدیں ہیں، کیونکہ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں ملی شکست کے بعد راہل گاندھی کے مستعفی ہونے کے بعد سے کانگریس صدر کو لے کر ملکی سطح پر بیزاری کی کیفیت محسوس کی جارہی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں باربار صدر کو لے کر تنقید کررہی تھیں۔ لیکن کانگریس نے بڑی دانشورانہ طورپر انتخاب کا فیصلہ لیا اور بالآخر آج ان اپوزیشن جماعتوں کے منہ پر لگام لگ گیا۔ اس انتخاب کو لے کر ملک کے طووعرض میں یہ خبر پھیل گئی ہے کہ اب کانگریس کی کشتی کو ایک مضبوط بادبان مل گیا ہے۔ ملیکا ارجن کھڑگے ایک مجرب اور سلجھے ہوئے ذہن کے سیاست داں ہیں۔ بلاشبہ ان کے صدر بننے سے کانگریس مضبوط ہوگی اور مستقبل کے انتخاب میں کانگریس کو فائدہ ملے گا۔
ملیکا ارجن کھڑگے کا تعارف: ملیکا ارجن کھڑگے کا تعلق جنوبی ہندوستان کے کرناٹک سے ہے۔ سیاست سے قبل وکالت کے پیشے سے منسلک رہے بعد ازاں سیاست میں آئے۔ ۱۹۷۲ سے لے کر ۲۰۰۹ تک لگاتار ۹؍بار ایم ایل اے رہے۔ ۲۰۰۹ میں گلبرگہ پارلیمانی حلقہ سے ایم پی بنے ۲۰۱۴ کے مودی لہر میں بھی فاتح رہے۔ ۲۰۱۹ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور گاندھی خاندان اور کانگریس سے وفاداری مسلم ہے۔
کانگریس کے صدارتی عہدے پر اب تک کتنے ہوئے فائز: واضح رہے کہ کانگریس کا قیام ۱۸۸۵ میں ہوا تھا۔ ۱۳۷ ؍سالوں میں اب تک ۹۸ صدور منتخب ہوئے ہیں۔ جن میں آزادی سے قبل ۶۱ صدور اور آزادی کے بعد ۳۷ صدور کانگریس کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ملیکا ارجن کھڑگے کا نمبر ۹۸ ہے۔ واضح رہے کہ اب تک چھہ بار ووٹنگ کے ذریعہ کانگریس صدر کا انتخاب ہوا ہے۔ بقیہ صدور کا انتخاب اتفاق رائے سے ہوتا رہا ہے۔ اب تک کل ۵ پانچ صدور کانگریس او رنہرو خاندان سے ہوئے ہیں۔ جب کہ آزادی سے قبل یا بعد باقی تمام صدورکا تعلق غیر کانگریسی خاندان سے تھا۔ یعنی کہ کل ۹۸ صدور میں سے محض پانچ صدور کانگریس خاندان سے تھے جب کہ باقی ۹۳ لوگ غیر کانگریسی خاندان سے ہی رہے ہیں۔ اس کے باوجود کانگریس پر اقربا پروری کا الزام لگتا رہا ہے۔ اب یہ الزام کتنا درست ہے یہ اس حقیقت کے آئینے میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ دو بار کے صدارتی ووٹنگ میں کانگریس حمایتی امیدوار کو شکست ملی جب کہ ایک بار کے انتخاب میں کانگریس خاندان نے غیر جانبدارانہ رول ادا کیا۔
ملیکاارجن کھڑگے اب تک کے دوسرے دلت چھہرہ ہیں جو صدر کے عہدہ پر فائد ہوئے ہیں۔ آج جب کہ پورے ملک میں دلت سماج بیداری کی طرف گامزن ہے ایسے وقت میں کسی دلت کا کانگریس کا صدر ہونا اس پارٹی کی کامیابی کی ضمانت مانی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ماضی میں یہ بات مشتہر تھی کہ ہندو کی بڑی ذاتیوں اور مسلمانوں کی حمایت کی بدولت ہی کانگریس کامیاب ہوتی رہی تھی۔ لیکن ۲۰۱۴ سے ہندو کی بڑی ذاتیوں کا رجحان دوسری طرف گیا جس کا نتیجہ ہوا کہ کانگریس ناکامی سے کی طرف جانے لگی۔ لیکن اسی بیچ ملکی سیاست میں دلت ہندوں کی حصہ داری اور سیاست میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ اور آج یہ بات مشہور ہے کہ دلت کو ساتھ لئے یاان کی حمایت کے بغیر نہ تو بھاجپا اقتدار میں آسکتی ہے اور نہ ہی کانگریس۔
یہ بات عام طورپر کہی جاتی رہی ہے کہ ذمہ داری کانٹوں بھری راہ ہوتی ہے اور کانگریس صدر کی ذمہ داری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس عہدے پر بیٹھنے والوں کے سامنے کئی چیلنجز رہتے ہیں۔ ملیکا ارجن کے سامنے مزید چیلنجز یہ ہیں کہ کانگریس گرچہ قدیم پارٹی ہو لیکن ابھی یہ پارٹی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے ایسے میں ریاستی سطح سے لے کر ملکی سطح پر اور اسمبلی سطح سے لے کر پارلیمانی سطح تک اسے مضبوطی کی اشد ضرورت ہے۔ آج کے حالات میں علاقائی پارٹیاں بھی کانگریس کے سامنے چیلنجز بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ اس نازک حالات میں ملیکا ارجن کھڑگے کے لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ :‘‘بہت کٹھن ہے ڈگر پن گھٹ کی’’ ۔ بوتھ سطح تک کانگریس کو مضبوط کرنا، ریاستی کمیٹیوں کو مضبوط کرنا اور ان کمیٹیوں میں نئی طاقت بھرنا نئے صدر کے لئے بڑا چیلنجز ہے۔ اب نئے صدر ان سب مسائل سے کیسے کانگریس کی کشتی کو پار لگاتے ہیں یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ ہاں ایک بات بہت ہی خوش آئند ہے کہ اپوزیشن کی تنقیدی زبان اب پوری طرح بند ہوچکی ہے۔ اب ان کے پاس اقربا پروری کے الزام کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ آج ہندوستان کا ہر ذی شعور شخص یہ اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ کانگریس اپنے اس قدم سے مضبوطی کی طرف گامزن ہونے کو ہے۔ اپنے سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی سمت میں اگر کانگریس کام کرتی ہے تو بلا شبہ اس کا مستقبل تابناک ہوگا۔