(ڈاکٹر صغیر احمد، ایم۔بی۔بی۔ایس، ایم ڈی)
جمعرات کو پٹنہ میں بھاجپا کارکنان پر پولس نے جم کر لاٹھیا برسائی جس میں جہاں آباد کے ایک بی جے پی کارکن وجے کمار سنگھ کی موت ہوگئی اور درجنوں بھاجپا کارکن زخمی ہوگئے ہیں۔ اس حادثے کے بعد بہار کی سیاست پوری طرح گرمائی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو پٹنہ میں بھاجپا کارکنان نے اساتذہ بحالی اور ۱۰؍ لاکھ روزگار فراہمی جیسے مطالبات کو لے کر گاندھی میدان سے قانون ساز اسمبلی کے گھیراؤ کے لئے نکلے تھے۔ دریں اثنا پولس نے احتجاجیوں پر لاٹھی چارج کیا۔ جس میں وجے کمار سنگھ کو چوٹیں آئی اور اسپتال پہنچنے تک ان کی موت ہوگئی۔ بھاجپاکارکن کی موت اور درجنوں لیڈران کے زخمی ہونے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام لیڈران آگ بگولہ ہیں اور اس حادثے کا ذمہ دار نتیش کمار اور ان کی سرکار کو ٹھہراتے ہوئے اسے ظلم وجبر قرار دے رہے ہیں۔ وہیں بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سے جب اس حادثے کے ضمن میں سوال پوچھا گیا اور کہا گیا کہ کیا یہ ایک بدلہ ہے تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی بدلہ نہیں ہے۔ بلکہ بھاجپا لیڈران سڑک پر بے جا واویلا مچا رہے تھے جس کو لے کر پولس نے قانون کے دائرے میں کارروائی کی ہے۔ تیجسوی نے کہا کہ ریاست بہار نے نتیش کمار کی قیادت میں جتنے اساتذہ کی بحالی کی ہے وہ دیگر ریاستوں کے لئے ایک مثال ہے۔ رہی بات روزگار کی تو جس ۱۰؍لاکھ روزگار کا وعدہ تھا وہ پانچ سال پورا ہوتے ہوتے ہم پورا کریں گے۔ وہیں انہوں نے کہا کہ بھاجپا والوں کو بہار میں روزگار فراہمی کی فکر لاحق ہے لیکن ملکی سطح پر یہ فکر کیوں نہیں ہے؟ بھاجپا نے پورے ملک سے کروڑوں لوگوں کو روزگار دینے کا جووعدہ کیا تھا کیا اب تک پورا ہوا؟ بالکل نہیں!
وہیں بہار کی عوام اسے آرجے ڈی کی جانب سے ایک بدلہ ہی تصور کررہی ہے۔ یاد ہوگا کہ کچھ مہینوں قبل جب بہار میں جدیو اور بھاجپا کی سرکار تھی تب اسمبلی کے اندر راشٹریہ جنتا دل کے رکن اسمبلیوں کو بری طرح پیٹا گیا گیا تھا۔
وہیں اس پورے معاملے میں اب تک بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہو کہ اس لاٹھی چارج کی نوبت آخر کیوں کر آئی۔ اور شاید دو تین روز تک ان کا کوئی بیان بھی نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ نتیش کمار کسی بھی متنازع اور کشیدہ حالات میں جلد بازی والے بیان سے مکمل گریز کرتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی سیاسی بازیگری ہے۔
لیکن جمہوریت والے اس ملک میں اس طرح کا حادثہ کوئی نیا نہیں ہے۔ مرحومہ جے للیتا اسی ملک کی ایک ریاست کی وزیر اعلیٰ تھیں جنہیں وزیر اعلیٰ بننے سے قبل ریاستی ایوان میں برسراقتدار جماعت کی طرف سے ظلم وستم کا نشانہ بنایاگیاتھا۔ خیر بات بہار کی ہے تو یہاں بھی ایوان کے ارکان کے ساتھ مارپیٹ اور ان کی بے حرمتی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کچھ ہی مہینوں قبل راشٹریہ جنتا دل کے ارکان اسمبلی نے اس درد کو جھیلا ہے۔ اور آج پھر ایک ایسا ہی نظارہ ریاست کی عوام دیکھ رہی ہے۔ اور کچھ ایسا ہی درد بھاجپا والے محسوس کررہے ہیں۔ غیر جانبدارانہ طورپر دیکھا جائے تو کسی بھی پارٹی کے اراکین خواہ وہ برسر اقتدار ہوں یا حزب اختلاف اگرکسی جائز مطالبات کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا سلوک درست نہیں ہے۔ یہ سب ماضی کے وہ تاریک اوراق بن جاتے ہیں جو سیاہ مستقبل کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو ظلم وجبر کی داستان لکھنے کے لئے کچھ سادہ اوراق اور روشنائیاں چھوڑجاتے ہیں۔
وہیں آج کے اس حادثے کے بعد کچھ آوازیں ایسی بھی آرہی ہیں کہ جیسا بووگے ویسا کاٹوگے۔ کاش اس سے قبل والا حادثہ نہ ہوا ہوتا۔ یعنی ایوان میں ارکان کی بے حرمتی نہ کی گئی ہوتی۔ تو آج بھی یہ نوبت نہ آتی۔ دوسری جانب کسی بھی قسم کے مطالبے کے ضمن میں احتجاج کرنے والے لیڈران کو احتجاج کے دوران سنجیدگی ہراعتبارسے ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے، قانون کا پاس ولحاظ رکھنا چاہئے اور تشدد سے پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن بعض دفعہ احتجاج کررہے لوگ ان باتوں کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ خاص کر ایسے لیڈران جن کا تعلق مرکز میں برسراقتدار جماعت سے ہو۔ اور پھر کچھ ایسے ہی افسوس ناک حالات رونما ہوتے ہیں جو ریاست کے اور ملک کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔