(عبدالمبین)
اس وقت بہار کی سیاست میں ایک طرح کا بھونچال آیا ہوا ہے۔ کبھی پھر نتیش کمار کا رخ بدلنے اور بی جے پی کے ساتھ جانے کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، کبھی جے ڈی یو کے ایم ایل اے کے بی جے پی سے رابطہ کرنے کی خبریں آتی ہیں، تو کبھی اپیندر کشواہا کی بی جے پی لیڈروں سے ملاقات کی بات سامنے آتی ہے۔ ان تینوں باتوں میں ایک بات پوری طرح سے درست ہے، وہ یہ کہ اوپیندر کشواہا کچھ دن قبل دہلی کے ایمس میں بی جے پی کے تین لیڈروں سے مل چکے ہیں۔ اب یہ ملاقات رسمی ہے یا اس میں کوئی سیاسی پیچیدگیاں چھپی ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ اوپیندر کشواہا کی بی جے پی سے ملاقات رسمی ہو۔ لیکن ان کی ملاقات پر شک کا گرہن اس وقت گہرا ہو گیا جب دہلی سے واپس آنے کے بعد اوپیندر کشواہا سے میڈیا نے سوال کیا تو انہوں نے اس ملاقات کو رسمی نہیں بتایا۔ بلکہ ایسا بیان دیا جس سے شک مزید گہرا ہو گیا۔ اپیندر کشواہا نے کہا کہ “کسی کے کسی سے بھی ذاتی تعلقات ہو سکتے ہیں، اور جے ڈی یو کے لیڈر جتنے بڑے ہیں، ان کا بی جے پی کے ساتھ اتنا ہی گہرا تعلق ہے۔” اوپیندر کشواہا نے مزید کہا کہ “ہماری پارٹی بی جے پی سے 3 بار اتحاد ہوا اور اپنی حکمت عملی کے مطابق پھر علیحدہ ہوئی۔اوپیندر کشواہا کے الفاظ کہ ہماری پارٹی کے جتنے بڑے لیڈر ہیں، ان کا بی جے پی سے رابطہ اتنا ہی مضبوط یا گہرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھلے ہی جے ڈی یو بی جے پی سے الگ ہو گئی ہے لیکن آج بھی ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ دوسری طرف حکمت عملی کے مطابق پارٹی کا بی جے پی میں شامل ہونا اور پھر الگ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بہار کے عظیم اتحاد میں اس وقت جو سیاسی ہلچل چل رہی ہے، ممکن ہے کہ جے ڈی یو کسی سیاسی حکمت عملی کی بناء پر دوبارہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لے۔
اگر پارٹی کو اپنی حکمت عملی کے مطابق کسی سے ملنا یا علیحدگی اختیار کرنی ہے تو ایسی حکمت عملی ہر گز عوام کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ اگر جے ڈی یو کے لیے بی جے پی کی حکمت عملی غلط ہے، یا اگر بی جے پی بہار کی عوام کے مفاد میں ٹھیک نہیں ہے تو اس سے لگاتار تین بار الگ ہونا اور پھر اسی غلط حکمت عملی والی بی جے پی سے ہاتھ ملانا جے ڈی یو کی غلط حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے۔ بار بار ملاقات اور علیحدگی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نتیش کمار کی حکمت عملی بہار کی عوام کے مفاد کے لیےبالکل نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اوپیندر کشواہا جے ڈی یو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں؟ لگتا ہے کہ اس سوال میں کچھ حقیقت ہے۔ کیوں کہ ابھی کچھ دن پہلے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ بہار میں دو نائب وزیر اعلیٰ نہیں ہوں گے، جب کہ اوپیندر کشواہا نے یہ خیال اپنے دل میں بسایا تھا کہ بہار میں دو نائب وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ لہٰذا اب اگر بہار میں کوئی اور نائب وزیر اعلیٰ ہوگا تو صرف میرا ہی نام آئے گا۔ لیکن نتیش کمار نے ان کی خواہش پر پانی پھیر دیا۔ ایسے میں اوپیندر کشواہا کا بی جے پی کی طرف جھکاؤ ایک فطری بات ہے۔
دوسری طرف آر جے ڈی ایم ایل اے سدھاکر سنگھ اور چندر شیکھر سنگھ کے بیانات پر آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے درمیان جوابی حملہ جاری ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ بہار کی سیاست میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ تیجسوی چاہتے ہیں کہ نتیش کمار انہیں وزیر اعلیٰ کا تخت سونپ دیں جبکہ جے ڈی یو کے اراکین اسمبلی تیجسوی سے زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اور نتیش کمار کا تمام پچھلا ریکارڈ رخ بدلنے کا رہا ہے، چاہے وہ 2 دن کا ہو یا 2 سال کا۔ جس شخص کو رخ بدلنے کا اتنا تجربہ ہو، اس کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا قدرے مشکل لگتا ہے۔