(عبدالمبین)
جب سے کے کے پاٹھک کو بہار حکومت کے محکمہ تعلیم میں ایڈیشنل چیف سکریٹری بنایا گیا ہے، کے کے پاٹھک اپنے روزانہ نئے اور سخت احکامات کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ ایک بات بلا شبہ کہی جا سکتی ہے کہ کے کے پاٹھک کے آنے سے اسکولوں کا ٹائم ٹیبل اور اساتذہ کی حاضری میں بہتری آئی ہے۔ ایسے ہزاروں اساتذہ تھے جو اسکول میں کم ہی نظر آتے تھے۔ بہت سے ایسے اساتذہ تھے جن کا آنے اور جانے کا وقت ان کی مرضی کے مطابق تھا۔ کے کے پاٹھک نے ایسے اساتذہ پر مکمل لگام لگا دی ہے۔
یوں تو کے کے پاٹھک کے احکامات پر آئے روز چرچے ہوتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں بہار کے سرکاری اسکولوں میں دسمبر تک چھٹیاں کم کرنے کا حکم موضوع بحث بن گیا ہے۔ حال ہی میں، بنیادی طور پر رکشا بندھن کے تہوار پر اسکولوں کی چھٹیوں کو منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ دسمبر 2023 تک 23 تعطیلات کو کم کر کے 11 دن کرنے کی وجہ سے ہنگامہ ہوا ہے۔
کے کے پاٹھک نے رکھشا بندھن سمیت 12 چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں، جس کی وجہ سے بہار کی ٹیچرس یونین اسکولوں کو تالے لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس معاملے میں اساتذہ، اپوزیشن اور گرینڈ الائنس میں شامل سی پی آئی (ایم ایل) پارٹی بھی حکومت کے خلاف ہیں۔ ان چھٹیوں کی منسوخی کے بارے میں بی جے پی لیڈر اور اساتذہ کی انجمن کا کہنا ہے کہ یہ بہار کے اساتذہ پر ظلم ہے، یہ کے کے پاٹھک کا ہٹلر شاہی فرمان ہے، نتیش کمار کو کے پاٹھک کو برطرف کرنا چاہیے۔
دوسری طرف نتیش کمار ان تمام معاملات میں کے کے پاٹھک کا ساتھ دیتے نظر آ رہے ہیں، نتیش کمار کا کہنا ہے کہ اگرچھٹیاں زیادہ ہوتی ہیں تو اس کا اثر بچوں کی پڑھائی پر پڑتا ہے۔ کے کے پاٹھک کی طرف سے پرائمری اسکولوں کے لیے 200 دن اور سیکنڈری اسکولوں کے لیے 220 دن کی چھٹی کو یقینی بنانے کا فیصلہ اسکول کے طلباء کے فائدے کے لیے ہے۔ اگر کسی کو اس میں کوئی خامی نظر آئے تو بتائے۔
کے کے پاٹھک کے فرمان کی تعریف یا مذمت، یہ سیاسی باتیں ہیں۔ لیکن ایمانداری سے دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو کے پاٹھک نے اب تک جو بھی احکامات جاری کیے ہیں، وہ بلاشبہ طلبا کے حقوق کا معاملہ ہے۔ آج سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کو بھی نتیش حکومت نے قابل احترام بنا دیا ہے۔ ایسے میں کیا اساتذہ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ سکولوں کے ٹائم ٹیبل کا پورا خیال رکھیں؟ کیا تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے اور کیا انہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ غیر ضروری چھٹیوں میں کمی کو سراہتے ہوئے اس پر عمل کریں؟ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہار کے سرکاری اساتذہ خود بخود وہ چھٹیاں منسوخ کر دیتے جو مسٹر پاٹھک نے کینسل کی تھیں۔ آج اگر بہار کے سرکاری اساتذہ نے کے کے پاٹھک کے فرمان کو حکم نامہ نہ سمجھا ہوتا بلکہ اپنی ذمہ داری اور تعلیم کے تئیں ایک گرو کی سچی لگن سمجھا ہوتا تو شاید بہار کے سرکاری اسکول اور بہار کے سرکاری اساتذہ دیگر ریاستوں کے لئے ایک مثال بن جاتے۔