Sunday, November 24, 2024

حقوق نسواں ایک پر فریب نعرہ

(مجاہد مظفر بیشن پوری)

حقوق نسواں سے مراد وہ حقوق و استحقاق ہے جن کا مطالبہ دنیا بھر میں مغرب کی افراط پسند ذہن کی عورتیں کرتی ہے۔حالانکہ اس حقوق اور آزادی کا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو حقوق نسواں کا علمبردار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنی تحریروں میں جنسی انارکی کو پیش کیا ہو ۔ جب بھی حقوق نسواں کی بات ہوتی ہے تو لازما اسلام کے نظام عدل پر اشکال کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا ۔ شاید اگر وہ قانون الہی  کا منصفانہ مطالعہ کرتے تو یہ بات ان پر آشکار ہو جاتی اسلام میں عورتوں کے حقوق عادلانہ اصولوں پر مشتمل ہے۔حالانکہ قبل اسلام کے ادوار میں عورتوں کی کوئی وقعت نہ تھی ہر چہار جانب ان کے ساتھ بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ مالوں اور جانوروں کے ساتھ ان کو بھی لوٹا جاتا تھا ان کو بس جنسی تسکین کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ہندوستان میں ستی کا رواج قائم تھا بیوہ عورتوں کو زندہ آگ کے حوالے کیا جاتا تھا عرب میں عورتوں کی پیدائش باعث عار تھی وہ اسے زندہ درگور کردیتے تھے۔ یورپ میں ان کو جانوروں کے مساوی قرار دے کر ان سے انسانی حقوق سلب کرلیا گیا۔ اور پھر جب اس دور میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو پھر اسلام نے عورتوں کو ان کے حقوق عطا کئے ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام مساوات کا قائل نہیں ہے مساوات اور عدل یہ دو الگ الگ شئی ہے تمام مخلوقات کو ان کا حق اسی وقت مل سکتا ہے جب “أعط كل ذي حق حقه” ہر ( حق دار کو اس کا حق ادا کرو ) پرعمل کیا جائے ۔صنف قوی کو گراں بار اور صنف نازک کو ہلکے بوجھ کا مکلف کیا جائے۔ اسلام نے اسی زاویہ پر عمل کیا۔ عورتوں کو گھر کی ملکہ قرار دیا مردوں پر باہر کی ذمہ داری عائد کر دی۔ اور عورتوں کے اخراجات کا ذمہ دار مردوں کو گرداننے کے باوجود مہر اور میراث میں اس کا حصہ متعین کر کے اس کو مال کا وارث بنایا۔ اور اس کو حدود الہی کے ساتھ تجارت کرنے اور ہر وہ کام کرنے کی اجازت دی جس سے اس کی عزت و آبرو کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے ۔ بیوی کے حقوق بیان کر کے ان کو تصرفات عطا کئے نیز اسلام نے ہر طرح سے عورتوں کے حقوق کو اجاگر کیا۔ انسان کے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار ماں کو گردانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا یارسول اللہﷺ میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔فرمایا “تیری ماں” پوچھا، پھرکون فرمایا ” تیری ماں “ اُس نے عرض کیا، پھر کون ۔فرمایا ۔۔”تیری ماں“ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا ۔چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا ۔”تیرا باپ ماں کے قدموں کو جنت قرار دیا،  “و اذا الموؤدۃ سئلت” کے ذریعہ عورتوں کو اس دنیا میں جینے کا حق دیا۔ خلع کے احکامات بیان کر کے ایک مثال قائم کی۔ بیواؤں اور طلاق شدہ عورتوں سے شادی کرنے کا حکم صادر کیا۔  اور الثیب أحق بنفسہا من ولیہا والبکر تستأمر و اذنھا سکوتھا  ثیبہ ( بیوہ یا مطلقہ دوبارہ شادی کرنے کے لئے) اپنے ولی کے مقابلے میں بنفسِ نفیس زیادہ حق دار ہے اور دوشیزہ سے اجازت لی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا سکوت ہو گا ۔ غرض یہ کہ عورتوں کو ایسے ایسے اختیارات عطا کئے جس کی مثال کسی بھی تہذیب میں نہیں ملتی اس کے باوجود معترضین کے اعتراضات کا نہ تھمنے والا طوفان بپا ہے، اور ایسے ایسے اعتراضات کہ ایک شریف النفس اس کو قبول نہیں کر سکتا۔ کیا حجاب پر پابندی حقوق نسواں اور آزادی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ تنگ سے تنگ اور چھوٹے سے چھوٹے کپڑے پہننا عورتوں کا فیشن بن چکا ہے اور اگر یہ آزادی ہے تو یہ آزادی مردوں کو کیوں میسر نہیں ۔ کیا آپ نے کبھی کسی آفس میں یا کسی تقریب میں مردوں کو دیکھا ہے کہ وہ تنگ اور گھٹنے سے اوپر چھوٹے کپڑے میں اس میں شرکت کرتے ہیں- کوئی بھی شریف انسان خواہ وہ کسی بھی مدہب کا ماننے والا ہویہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی گھر کی عورتیں اسکارٹ پہن کر نائٹ کلب میں غیروں کے ساتھ عیاشیاں کرتی پھرے۔ بھارت میں تو یوں کہا جا تا ہے کہ پردہ ہندوستان کی تہذیب ہے۔ راجستھان وغیرہ کے علاقے میں آج بھی پردے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ عریانیت جسے آج ترقی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یہ تو مغربی تہذیب ہے مشرق کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے مشرقی تہذیب تو اس سے بالکل مختلف ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں راکھی ساونت کے ساتھ ایک مسلم لڑکی سارا خان نے یہ کہا تھا کہ مردوں کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینی چاہئے اور ہمیں عریاں ہوکر گھومنے کی اجازت دینی چاہئے۔ حالانکہ سارا خان نامی لڑکی نے بعد میں اپنے بیان کے لئے معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن اس کا معافی والا بیان بہت بعد میں آیا تھا۔ ذرا سوچیں کہ جس وقت سارا نای لڑکی نے ایسی بے ہودہ بیان بازی کی تھی اس کی سوچ کیا رہی ہوگی؟ ان جیسی لڑکیوں کو پردہ کی اہمیت کیسے سمجھائی جاسکتی ہے؟ جنہیں عریاں ہوکر گھومنا ہی ہی عورتوں کی آزادی لگتی ہو۔ اگر کسی کو بے شرمی آزادی اور حقوق نسواں کی بازیابی لگنے لگے تو پھر ایسی پراگندہ ذہنیت اسلام تو دور مشرق کی نہیں ہوسکتی۔

آج ہمارے ملک میں مسلم خواتین کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ مذہبی معاملوں میں بہت برا سلوک ہورہا ہے چاہے وہ طلاق کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ ہو۔ اور اسی بہانے کچھ فرقہ پرست طاقتیں مسلم لڑکیوں کو ورغلا کر اسلام سے متنفر کرنے کے در پہ ہیں اور کچھ حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں  لہذا آج ضرورت ہے لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی  اور یہ بتانے کی کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کے متعلق مغرب کے افراط اور جاہلیت کے تفریط کے بیچ عدل کی راہ قائم کی ہے انہیں راہوں پر چل کر عورتوں کو ان کا ان کا اصل حق ملے گا اور یہی قانون فطرت ہے

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles