(عبدالمبین)
آج کل سوشل میڈیا اور اخباروں کی کئی ہیڈ لائینیں بڑے پرکشش انداز میں سامنے آرہی ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی فلاں غیرمسلم لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج کرچکی ہے۔ فلاں مسلم لڑکی فلاں غیر مسلم شخص کے ساتھ شادی رچا رہی ہے، فلاں ۔۔۔۔ خاتون نے فلاں ۔۔۔۔ کمار کے ساتھ ایک لمبے عشق ومعاشقہ کے بعد گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کر لی ہے۔ اب اس قسم کی سرخیوں کو پڑھنے والے لوگ پڑھتے ہوئے لعن وطعن کے کچھ الفاظ گنگناتے ہیں، کچھ لوگ دوچار لوگوں کے ساتھ اس مسلم لڑکی کو کوستے ہیں اور پھر اس سانحے کو ایک سازش کا نام دے کر ایک کراہ بھری آہ لیتے ہیں۔ اور پھر اپنے روزنامے کے عمل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ خواہ پڑھا لکھا طبقہ ہو یا ناخواندہ۔
آج تک اپنے آپ کو غیور کہنے والی قوم کا کوئی بھی فرد اس المیہ کے سدد باب کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے سے قاصر ہے۔ ایک افسوس بھرا لفظ کہہ سن کر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر یہ حادثات ایسے ہی اپنی تیز رفتاری سے جاری رہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے آنگن کی رحمتوں کو رسوا ہوتے تو دیکھیں گے ہی ساتھ ہی اپنی غیرت کا بھی جنازہ ہمیں پڑھنا ہوگا۔
ان سارے فسادات کی جڑیں ان روشن خیال والدین کی رہین منت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خواتین کو کچھ آزادیاں دینی چاہئے، لڑکیوں کو ان کے سوچ کے موافق کچھ فیصلے کرنے کا حق ہے۔ زیادہ پابندیاں اپنی بچیوں پر ظلم کرنے جیسا ہے۔ اور سب سے احمق وہ مسلم گارجین حضرات ہیں جو پردہ کو لایعنی سمجھتے ہیں۔ اپنی لاڈلیوں کو اپنے لاڈلوں جیسا لباس پہنانے اور عریانیت بھرسے ڈریس کو ان کے سامنے پیش کرنا اپنی مالداری تصور کرتے ہیں۔ یاد رکھئے یہ مالداری نہیں آپ کی غیرت کا فقدان ہے، جو آپ اپنی بیٹیوں کو لباس کے معاملات میں یا گھر سے باہر رہنے، یا پھر دوستوں سے تعلقات قائم کرنے میں اپنے بیٹوں جیسی چھوٹ فراہم کرتے ہیں۔ یہ بے جا آزادی ہی ان لاڈلیوں کو ذلالت کے اس دہانے پر لے جاتی ہے جہاں سے وہ خود تو ذلت کے عمیق گہرائیوں میں ڈوبتی ہی ہے آپ کی نام نہاد عزت کا بھی جنازہ اٹھ جاتا ہے۔ اور پھر بے تکے انداز میں ویسے گارجین حضرات کہتے ہیں کہ ہماری اولاد اوباش نکلی۔ تو سوال کا زاویہ آپ کی طرف ہی گھومتا ہے کہ آپ نے پرورش کس انداز سے کی تھی؟
کچھ لوگوں کی تحریریں سامنے آرہی ہیں، جس میں ان حادثات کو ایک سازش کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ ‘‘بصیرت آن لائن’’ کے مطابق پونم پانڈے نامی غیر مسلم خاتون نے ایک انکشاف کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: ‘‘گھر واپسی کے نام پر مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے۔ آرایس ایس سے جڑی کئی ہندو تنظیمیں اس منصوبہ پر عمل کررہی ہیں کہ چھ ماہ کے اندر ۲۱۰۰ مسلم لڑکیوں کو مذہب تبدیل کروانا ہے چاہے محبت کے دام فریب کے ذریعہ ہو یا شادی کے فریب کے ذریعہ۔ یوپی کے ہندوجاگرن منچ کے ریاستی صدر اجو چوہان کا ایک بیان بھی سامنے آرہا ہے کہ ہمارا ہدف ہے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو گھرواپسی کرایا جائے چاہے اس کا طریقہ محبت ہو یا شادی۔ اجو چوہان کا کہنا ہے کہ ہمارے لڑکے ان لڑکیوں سے رابطے کررہے ہیں جنہیں ہمیں گھرواپسی کرانا ہے۔ پہلے ان لڑکیوں کو عشق ومعاشقہ کے فریب کے ذریعہ ہندو لڑکوں سے منسلک کرنا ہے پھر انہیں تبدیلی مذہب کے ذریعہ گھرواپسی کرانا ہے۔
اس قضیہ کو ایک سازش ماننے والوں سے میرا کہنا ہے کہ بالفرض ہم اسے سازش مان بھی لیں تو کیا اس سازش کا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ ہندو یا غیر مسلم لڑکے جبراً ہمارے گھر میں گھس کر ہماری لاڈلی کو یہ کہتے ہیں کہ چلو مجھے تم سے عشق کرنا ہے؟ یا پھر یہ کہتے ہیں کہ چلو مجھے تمہارے ساتھ شادی کرنی ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ اس سازش میں بھی اولاً وہ لڑکے ہماری بیٹیوں سے رابطہ کرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ گھومنا پھرنا ہوتا ہے، پھر بات آگے بڑھتے ہوئے شادی کے مرحلے تک پہنچتی ہے۔
تواس معاملہ کو ایک سازش ماننے والوں سے یہ سوال ہے کہ ہم اس وقت کس خواب غفلت میں سوئے رہتے ہیں جب ہماری بیٹیاں فحاشیت اور عریانیت بھرے انداز میں اپنے گھروں سے نکلتی ہیں، اس وقت کہاں سوئے رہتے ہیں جب ان لڑکوں کے ساتھ مارکیٹ یا دیگر جگہوں میں ملنے جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کے پاس وہ موبائل کہاں سے آتا ہے جن کے ذریعہ وہ ان اوباش یا سازشی لڑکوں سے گھنٹوں باتیں کرتی ہیں؟ بلا شبہ ان سارے معاملات میں غلطی گارجین حضرات کی ہی ہے۔ جو بے جا آزادی کا راگ الاپتے ہوئے اپنی بچیوں کو غیر اسلامی طریقہ سے آزادی مہیا کرتے ہیں۔
اسلام نے محرم اور غیر محرم کی تاکید کردی ہے، یہ واضح انداز میں بتلادیا ہے کہ لڑکیوں کواگر گھرسے باہر نکلنا ہے تو کس انداز اور کس لباس میں نکلنا ہے، اس کے باوجود ہم پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، یاد رکھئے کہ زنا کی پہلی سیڑھی آنکھ ہی ہے۔ اگر کسی غیر محرم یا غیر مذہب کے سامنے اسلامی خاتون غیر اسلامی لباس میں جاتی ہیں تبھی اس کے ذہن میں اسے رام کرنے کی لالچ جگ اٹھتی ہے۔ اور پھر وہ نا معقول شخص اپنے غلط عزائم کی تکمیل کے تگ ودو میں لگ جاتا ہے۔
مسلم والدین سے یہ اپیل ہے کہ خدا را اپنے بچے اور بچیوں کے لباس کی فکر کریں، اسے اسلامی شعائر کا پابند بنائیں، اس کی تربیت اسلامی انداز سے کریں، آزادی نسواں کا بے جا راگ نہ الاپیں، اسلام نے عورتوں کوگھر میں رہنے کا حکم جو دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ قید وبند کی زندگی ہے، بلکہ انہیں گھر کی ملکہ بنایا ہے۔ آپ اپنی اس قیمتی اثاثہ جو آپ کے لئے جنت کی کنجی ثابت ہونے والی ہے اس کی پرورش وپرداخت میں اسلام کا قانون ملحوظ رکھیں۔ ان شائ اللہ اس ذلت سے اللہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔