(ثناءاللہ صادق تیمی)
بابری مسجد کو لے کر مسلمانوں نے ایک طویل قانونی لڑائی لڑی ، انہوں نے ملک کی عدلیہ پر بھروسہ جتایا اور جو فیصلہ سنایا گيا اسے بھی بادل نخواستہ قبول کیا ہرچند کہ وہ فیصلہ ان کی توقعات کے مطابق بالکل بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے دن دہاڑے بابری مسجد شہید کی گئی تھی جسے عدلیہ نے بھی مانا کہ وہ انتہائی درجے میں مجرمانہ عمل تھا البتہ ان مجرموں میں سے کسی کو آج تک کوئی سزا نہیں دی گئی ۔رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ سناتے ہوئے بھی عدلیہ نے کچھ باتیں واضح کیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی ، مسلمان یہاں نماز پڑھتے رہے ہیں اور بابری مسجد کا ڈھایا جانا غلط تھا البتہ آستھے کی بنیاد پر عدالت نے مندر کی تعمیر کا حکم دیا اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے الگ سے جگہ دی گئی ۔عدلیہ نے مندر کی تعمیر کی ذمہ داری بھی حکومت کو ہی دی ۔اس پورے فیصلے پر مسلمانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا اورسپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع بھی کیا لیکن کورٹ نے ان کی ایک نہ سنی اور یوں یہ طویل معاملہ اپنے تکلیف دہ انجام کو پہنچا۔
حکومت ظاہر ہے کہ نریندر مودی کی ہے جو سنگھ کے ایک رکن رہے ہیں اور آرایس ایس ابھی باضابطہ طریقے سے حکومت کو کنٹرول کررہا ہے ، عدلیہ نے بھی جب ان کے مطابق فیصلہ دےدیا تو پھر ان کے لیے یہی رہ گيا تھا کہ وہ اس کا زیادہ سے زیاد ہ سیاسی فائدہ اٹھائیں اور وہی ہوا بھی ۔ مودی ایسے بھی اس قسم کا ماحول بنانے کے ماہر ہیں ، انہوں نے اپنی پوری قوت لگا دی اور میڈیا کی مدد سے ایک خاص قسم کا ماحول بنایا گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جس ہندو راشٹر کا خواب دیکھا جارہا تھا وہ نافذ بھی ہوگيا ہے ۔
حکومت نے اس پروگرام کے لیے مختلف میدانوں کے معروف لوگوں کو دعوت دی ، ان میں بطور خاص فلم انڈسٹری کے لوگ بلائے گئے ، اس پر بھی کسی کو کوئی تعجب نہیں ہوا ہوگا کہ ان پانچ ججیز کو بھی دعوت دی گئی جنہوں نے یہ فیصلہ دیا تھا ، مختلف میدانوں کے معروف لوگ اکٹھے ہوئے اور مودی نے اپنے خاص انداز میں یہ کام کیا ، دو تین مہینے قبل سے میڈیا نے ایک خاص ماحول بنانا شروع کیا اور وہ ماحول بن بھی گيا۔
یہاں دو تین باتیں ذکرکرنے کی ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ کانگریس سمیت لگ بھگ دوسری معتبر اپوزیشن پارٹیوں نے اس پروگرام میں شرکت نہیں کی، چار شنکر اچاریہ نے اس پر اپنے اعتراضات جڑے اور خود کو اس سے الگ کرلیا اور بھی کئی سارے انصاف پسند لوگوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی ۔
لیکن پچھلے چندسالوں سے جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنایا گيا ہے اورجس طرح ہر سیکولر آواز دبائی گئی ہے اور لوگوں کو نشانہ بنایا گيا ہے اس کا بہر حال اثر نمایاں طور پر دیکھنے کو ملا ، بہت سے لوگوں نے بولنے پر خاموشی کو ترجیح دی البتہ بہت سے وہ لوگ جو خود سیکولر کہتے تھے انہوں نے اس پروگرام کا جشن منایا اور اپنے طور پر خوشی کا اظہار کیا ۔
جہاں تک میں نے اس پورے معاملے پر غور کرنے کی کوشش کی ہے ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک کی اکثریت مذہب پسند ہے اور اکثریت کو مذہب کا درست علم بھی نہیں ہے ، انہیں مذہب کے نام پر آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ، اکثریت میں جو جوش اور جنون دیکھنے کو ملا ، یہ اسی حقیقت کا اظہاریہ ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ہوا کے ساتھ چلتے ہیں ، ان کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا ، سیکولر آوازیں مضبوط ہوں تو ادھر چلے جائیں گے اور اگر مذہبیت رنگ جمارہی ہو تو ماتھے پر ٹیکا لگا کر مذہبی بھی بن جائیں گے ، فلم انڈسٹری سے جڑےایسے کئی لوگوں کے چہرے ہمارے سامنے ہیں ۔کچھ تجارت پیشہ ہیں ، انہیں نظریا ت سے کوئی مطلب نہیں ، جدھر فائدہ دکھے گا ادھر چل پڑیں گے اور ایسے لوگ بہر حال کم نہیں ہیں ۔ بعض لوگ اپنے نظریات کو لے کر واضح رویہ رکھنے والے ہیں اور یہ بہر حال کم ہیں ۔یہی کم لوگ تھے جنہوں نے اپنے طور پر کمزور ہی سہی آواز اٹھانے کی جرات دکھائی لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے ؟
مسلمانوں کو اس پورے معاملے سے تکلیف ہونی ہی چاہیے تھی ، ان کے ہاتھ سے ان کی تاریخی مسجد ہی نہيں گئی ، اکثریت نے مختلف زاویوں سے یہ دکھانے کی بھی کوشش کی کہ وہ فتحیاب ہوئی ہے اور مد مقابل شکست سے دوچار ہوا ہے ، پھر میڈیا نے جس طرح بدتمیزی کا ننگا ناچ ناچا اس سے بھی ایک خاص قسم کا ماحول بناجس میں تکلیف ، حسرت اور خوف کے عناصر دیکھنے والوں کو صاف نظر آئے ۔اور سچ پوچھیے تو نہ تکلیف بے وقت تھی اور نہ خوف بے جا۔لیکن مختلف ذرائع سے جو ردعمل سامنے آيا وہ بہر حال سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔
لکھنے والوں کی اکثریت نے بے جے پی کے علاوہ لوگوں کو ٹارگیٹ کیاکہ وہ بھی جشن میں شریک ہيں ۔میں یہ سمجھنے سےقاصر رہا کہ آپ بھلا کسی ہندو سے ہر چند کہ وہ فرقہ پرست نہ ہو ، کیوں کر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مندر بننے پر خوش نہیں ہوگا۔جہاں بدلے حالات کے جبر کا نتیجہ یہ ہو کہ کچھ مسلمان بھی آگے بڑھ بڑھ کر استقبال کررہے ہوں اور رام ہمارے ہيں کا نعرہ لگا رہے ہوں وہاں ہندو برادران وطن کو کوسنا کہاں کی عقل مندی ہوسکتی ہے ؟پھر چلیے کہ ان سے آپ کو مایوسی ہوئی لیکن بھروسہ ان پر ہی کیوں تھا ؟ ہماری اپنی تیاری کیا تھی ؟ ہمارے اپنے لوگوں کا رد عمل ایسا کیسے ہوگيا؟دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو ماحول بن گيا ہے ، نفرت اور فرقہ واریت کا ہمیں کیا لگتا ہےکہ ہمارے اس قسم کے غصے اور مایوسی کے اظہار سے وہ ختم ہوجائے گا یا ہماری کوئی اور بھی ذمہ داری بنتی ہے ؟جو طبقہ آج تک ہمارے ساتھ تھا اگر وہ خود کو کمزور محسوس کررہا ہے اور آواز نہيں اٹھا پارہا یا پھر وہ بھی ان فرقہ پرستوں کی ہی بولی بولنے پر مجبور ہے تو یہ بھی تو غور کرنا ہوگا کہ ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ موجودہ حکمرانوں کا رویہ ہمارے ساتھ تو معاندانہ ہے ہی خود برادران وطن میں بھی انصاف پسند لوگوں کو معتدل فکرو نظر اوررویے کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے ، وہ بھی نشانے پر ہيں اور یہ سامنے کا سچ نظر تو آنا ہی چاہیے ۔ایسے میں فرسٹریشن کا اظہار آسان ہے لیکن درست حکمت عملی بنانا مشکل ۔ ابھی کسی بھی وقت سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے دین کی روشنی میں برادران وطن کے ساتھ اچھے سماجی روابط بنائیں اور فرقہ پرستوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ مزید حالات بگاڑیں اور ملک کا ماحول مزید مسموم کریں ۔یاد رکھیے کہ کسی بھی سماج کا ڈھانچہ وہاں کی اکثریت ہی بناتی ہے ،اگر ہم نے اکثریت کے اس طبقے کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا جو بہرحال دوسروں کے مقابلے میں غنیمت ہے تو نتیجہ اور بھی خراب ہوگا، آخر کو رہنا تو ہمیں ان کے بیچ ہی ہے اور ہمارے پاس تو کوئی دوسری راہ بھی نہيں ۔یہ بھی کم نہیں کہ اس ماحول میں بھی بہت سے لوگ سچ کہنے کی راہ پر قائم ہیں ، سیاسی پارٹیاں اس بیانیے کے خلاف بھی کھڑی نظر آتی ہیں اور سماجی سطح پر بھی سب کچھ ویسا خراب نہيں ہوگيا ہے ۔ہماری کوشش حالات کو بہتر کرنے کی ہونی چاہیے ، لکھ لیجیے کہ مایوسی یا خوف مسئلے کا حل نہيں ۔یہ بھی واضح رہے کہ حالات کو بہتر کرنے کا کام علاحدگی پسند رویوں سے بھی نہيں ہوسکتا ، ہمیں برادران وطن کے ساتھ ہی حالات کو بہتر بنانےکی کوشش کرنی ہوگی۔یہ کام مشکل ہے لیکن یہ بہر حال ناممکن نہيں۔