(اسد الرحمن تیمی)
۸/ستمبر ۲۰۲۲ کو برطانوی ملکہ الزابیتھ دوئم کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے کنگ چارلس سوئم کو برطانوی بادشاہت کے نئے سربراہ کے طور پر تاج پہنایا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ برطانیہ سمیت چودہ بڑے ممالک کے شہنشاہ بن گئے ہیں۔ گرچہ برطانوی سیاست میں بادشاہ کو کوئی بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ اور اختیارات حاصل نہیں ہوتے لیکن بین الاقوامی طورپر ان کی شخصیت اہم اؤر باوقار مانی جاتی ہے۔ ان کی باتیں بغور سنی جاتی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات ذرائع ابلاغ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔اس مضمون میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے جذبات واحساسات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کیا برطانیہ کے مجودہ شہنشاہ مسلمان ہیں؟
سن 1996 میں قبرص کے مفتی نے حیران کن طور پر برطانیہ کے نئے شاہ چارلس سوئم پر خفیہ طور پرمسلمان ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مرحوم ناظم الحقانی نے کہا تھاکہ کیا آپ جانتے ہیں کہ شہزادہ چارلس نے اسلام قبول کرلیا ہے؟ وہ مسلمان ہیں! میں اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتا، یہ ترکی میں ہوا، انہوں نے وہیں اسلام قبول کیاہے، آپ غور کریں کہ وہ کتنی بار ترکی کا سفر کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا مستقبل کا بادشاہ مسلمان ہے تب بکنگھم پیلس نے اس دعوے کا سادگی سے جواب دیاتھا کہ : “فضول بات “۔
برطانوی “مڈل ایسٹ آئی” ویب سائٹ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چارلس جو گزشتہ ہفتے نئے نئے بادشاہ بنے ہیں ،کوئی خفیہ مسلمان نہیں ہیں، البتہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ اسلام سے متاثر ہیں اور اسلام کے بارے میں گہری جانکاری رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا کیا گیا ہے کہ 73 سالہ چارلس، جو اب چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بھی ہیں، نے ماضی میں مسلمانوں اور اسلام سے متعلق مذہبی اور تاریخی موضوعات پر کئی تقاریر کی ہیں۔
انہوں نے ایک بار خود یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ قرآن کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عربی سیکھ رہے ہیں، اس حقیقت کی تائید کیمبرج سنٹرل مسجد کے امام نے گزشتہ ہفتے ایک خطبہ کے دوران کی تھی۔
بہر حال چارلس سوئم کےچند دہائیوں میں اسلام کے حوالے سے چند اہم تبصرے یہ ہیں:
۱- ماحولیات:
چارلس طویل عرصے سے ماحولیاتی مسائل اور آب و ہوا کی تبدیلی کاموضوع اٹھاتے رہے ہیں، بعض اوقات اس موضوع پروہ اسلام کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔1996 ء کی ایک تقریر میں جس کا عنوان تھا “تقدس کا احساس… اسلام اور مغرب کے درمیان پل کی تعمیر” انہوں نے کہا تھا کہ قدرتی نظام کے اسلامی نظریات کی تعریف وتنفیذ سے” مغرب میں ہمیں انسان اور اس کے ماحول کے لیے اپنی عملی دیکھ بھال پر نظر ثانی کرنے اور بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ “
چارلس نے ان خیالات کو تفصیل سے آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں 2010 کی ایک تقریر کے دوران بتایا، جس کے وہ 1993 سے سرپرست ہیں۔
“میں اسلام کی بنیادی تعلیمات جو کچھ جانتا ہوں، اس سے جو اہم اصول ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ فطرت کی کثرت کی حدود ہوتی ہیں، یہ صوابدیدی حدود نہیں ہیں، یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ حدود ہیں، اور اگر میری قرآن کی سمجھ درست ہے تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ اس سے تجاوز نہ کریں۔
بعد میں انہوں نے اسلام کو “انسانوں کے لیے دستیاب ذہانت اور روحانی علم کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ایک اہم خزانہ” کے طور پر بیان کیا، یہ اسلام کی ایسی تصویر ہے جو ان کے بقول “مغربی مادیت پرستی” کی طرف رجحان کی وجہ سے دھندلی ہے۔
انہوںنے مزید کہا کہ اسلام سکھاتا ہے کہ ہم اس کرۂ ارض پر دوسرے جانداروں کے شانہ بشانہ رہتے ہیں اور اس سبق کو نظر انداز کرنے کا مطلب ہے کہ ہم نے خالق کے ساتھ اپنے معاہدے کو توڑ ڈالا۔
گذشتہ صدیوں کے دوران اسلامی شہری منصوبہ بندی کی مثالیں پیش کیں جن میں 1200 سال قبل اسپین میں آبپاشی کے نظام بھی شامل تھے، مثال کے طور پر کہ کس طرح طویل مدتی وسائل کی منصوبہ بندی کی “پیغمبرانہ تعلیمات” کو “قلیل مدتی معیشتوں” کے حق میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ “
درحقیقت، چارلس سوئم اپنے گلوسٹر شائر واقع گھر میں باغ اسلامی روایات اور قرآن میں مذکور پودوں سے متاثر ہے۔
2- ڈینش کارٹون اور شیطانی آیات
سن 2006 میں، قاہرہ کی جامعہ الازہر کے دورے کے دوران، کنگ چارلس نے ایک سال قبل ڈنمارک کے کارٹونوں کی اشاعت پر تنقید کی، جس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ “ایک مہذب معاشرے کی اصل نشانی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں اور اجنبیوں کا احترام کرتا ہے۔ ڈنمارک کے کارٹونز پر خوفناک تنازعہ اور حالیہ غصہ اس خطرے کو ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لیے قیمتی اور مقدس چیزوں کو سننے اور اس کا احترام کرنے میں ہماری ناکامی سے پیدا ہوتا ہے۔” .
سن 2014 میں، مصنف مارٹن ایمس نے وینٹی فیئر کو بتایا کہ اس نے سلمان رشدی کی حمایت کرنے سے صاف انکار کر نے کے بعد چارلس سے بات کی تھی جب کہ شیطانی آیات کی اشاعت کے بعد ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ ایمز نے دعویٰ کیا کہ چارلس نے اسے بتایا کہ جوشخص دوسرے شخص کے عقائد کی توہین کرتا ہے وہ اس کی مدد نہیں کرسکتا ہے ۔
3- اسلام اور مغرب:
چارلس نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب کو چاہئے کہ وہ اسلام کو بہتر طور پر سمجھے۔
انہوں نے کہا کہ “اگر اسلام کی نوعیت کے بارے میں مغرب میں بہت زیادہ غلط فہمی پائی جاتی ہے تو اس سے بھی لاعلمی پائی جاتی ہے کہ ہماری ثقافت اور تہذیب اسلامی دنیا کی مرہون منت ہے۔” انہوں نے تقریباً تین دہائیاں قبل آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز میں کہا کہ “یہ ایک ناکامی ہے جو مجھے یقین ہے کہ تاریخ کے ان بیڑیوں سے جنم لیتی ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ اسلام نے “اپنے اور اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں ایک مابعد الطبیعاتی اور متحد نظریہ کو برقرار رکھا”، جسے مغرب نے سائنسی انقلاب کے بعد کھو دیا۔
انہوں نے لوگوں سے انتہا پسندی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے فتنے کی مزاحمت کرنے پر بھی زور دیا اور “ہمیں یہ سوچنے کی طرف مائل نہیں ہونا چاہئے کہ انتہا پسندی کسی نہ کسی طرح ایک مسلمان کی امتیازی اور اندرونی خصوصیت ہے۔” انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی صرف اسلام ہی نہیں بلکہ عیسائیت سمیت دیگر مذاہب میں بھی ہے۔مسلمانوں کی اکثریت اپنی سیاست میں اعتدال پسند ہیں، ان کا مذہب معتدل مذہب ہے،اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ انتہا پسندی سے نفرت کرتے تھے۔
۴- اسلام کا مالیاتی نظام:
لندن میں ورلڈ اسلامک اکنامک فورم سے 2013 کی تقریر میں، چارلسIII نے اسلامی مالیات کے بارے میں تفصیلی معلومات کا مظاہرہ کیا، اور ان کے خیال میں اس سے عالمی مالیاتی منڈیوں میں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کی اخلاقی معاشیات کی روح منصفانہ عمل پر مبنی ہے۔ جس میں نفع نقصان کی باہمی شراکت ہے جبکہ موجودہ مالیاتی نظام یکطرفہ فائدہ پر مرکوز ہے۔۔ “یہی وجہ ہے کہ مالیاتی اور کاروباری تنظیمیں جو اسلام میں جڑے اصولوں پر مضبوطی سے عمل کرتی ہیں، ایک زیادہ اخلاقی نقطہ نظر کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں درست نتائج حاصل ہوتے ہیں۔”
۵- دنیا پر مسلمانوں کے اثرات:
چارلس سوئم نے سائنس، فن اور علمی شعبوں میں مسلمانوں کے تعاون کا بار بار ذکرکیاہے۔ انہوں نے 2006 میں الازہر یونیورسٹی میں کہا، “ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب میں ہم علمائے اسلام کے مقروض ہیں۔ ان کی بدولت یورپ میں تاریک دور میں کلاسیکی علوم کے خزانے زندہ رہے۔”
انہوں نے 3 سال قبل لسیسٹر شائر کے مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن میں ریاضی میں اسلام کی شراکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، “جو بھی شخص یورپی نشاۃ ثانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے تعاون پر شک کرتا ہے ، اسے کچھ آسان ریاضی کا استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عربی ہندسے اور صفر کا تصور مسلم ریاضی دانوں نے یورپی فکر میں متعارف کرایاہے۔
سن 1993 میں اپنی مشہور تقریر میں انہوں نے کہا:”ترکی، مصر اور شام جیسے اسلامی ممالک نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا جیسا کہ یورپ نے اپنی خواتین کو دیا ہے، ان ممالک میں خواتین کو طویل عرصے سے مساوی اجرت حاصل ہے، اور اپنے کام اور معاشرہ میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے۔
شاہ چارلس سوئم کا ماننا ہے کہ مسئلے فلسطین کے حل کے بغیر عالمی امن کا تصور ناممکن ہے اس مسئلے کی وجہ سے دیگر جگہوں پر بھی مسائل پیدا ہور ہے ہیں، ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کی انہوں نے پرزور مذمت کی بلکہ اس وقت اپنے وزیر اعظم ٹونی بلیر کو بھی امریکہ کی حمایت کے لئے ہدف تنقید بنایا۔
اگرچہ برطانوی شہنشاہ کو کوئی بہت زیادہ سیاست اثر ورسوخ حاصل نہیں ہوتا لیکن موجودہ اسلامی فوبک دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کے احساسات قابل قدر ہیں۔