Sunday, November 24, 2024

محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب کی حالیہ دنوں میں بہترین حصولیابیاں

(ثناء اللہ صادق تیمی)

سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ واقع ہیں، یوں  عالم اسلام کا دل یہیں ہے، دولت و ثروت کے معاملے میں بھی سعودی عرب دنیا کے مالدار ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر لوگ یہاں کام کرتے ہیں اور اچھے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں یہاں کی روایتی معاشرت بہت سی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوئی ہے اور ان پر خوب چرچا بھی ہوا ہے۔ بعض سچائیوں کے ساتھ بہت سی افواہیں بھی خوب پھیلائی گئی ہیں لیکن بعض بڑے حقائق پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔  آئیے چند حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں۔

(۱) سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں عرب ممالک علاقائی سطح پر اتحاد کی طرف بڑھے ہیں اور انہوں نے وقت کے سپر پاور کو بھی اس کی اوقات دکھائی ہے۔ یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ ایک ہی وقت میں سعودی عرب کے پڑوسی ممالک کے سربراہان سعودی عرب آئے تھے اور امریکی صدر بائیڈن بھی آئے تھے، ولی عہد نے اپنے پڑوسی سربراہان کا خود استقبال کیا تھا اور امریکی صدر کے استقبال کے لیے گورنر کو بھیجا گیا تھا۔ بعد میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات بھی کہی تھی کہ سعودی عرب کے لوگ عظیم ہیں، بائیڈن نے ان کی اہانت کرنی چاہی اور بدلے میں اسے انگوٹھا ملا۔

(۲) یاد رکھنے والوں کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جن دنوں اقتصادی ترقی اور شہری ترقیات کے تناظر میں ولی عہد محمد بن سلمان گلف ممالک کو کل کا یورپ بتا رہے تھے، اس وقت حالانکہ کہ قطر سے ان کے اختلافات چل رہے تھے لیکن انہوں نے قطر کو بھی اس ترقی میں شامل رکھا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ پھر کس سمجھداری سے نہ صرف یہ کہ قطر سے تعلقات بحال ہوئے بلکہ فٹبال کے ورلڈ کپ کی کامیاب میزبانی کے لیے سعودی عرب نے قطر کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیا اور مغربی میڈیا کے لاکھ پروپیگنڈے کے باوجود میزبانی ہر اعتبار سے کامیاب رہی۔

(۳)  یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب نے ایران سے اپنے تعلقات بحال کر لیے ہیں، یہاں امریکہ کو در خور اعتناء نہ سمجھنے سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ اتنی بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور سعودی عرب کی قیادت میں یہ بات لگ بھگ طے ہوتی جارہی ہے کہ یہ عرب ممالک باہمی مسائل کو حل کرکے پر سکون زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس بڑے فیصلے کے بعد بڑے نتائج رونما ہونے لگے ہیں۔ یمن کا مسئلہ بھی حل ہوا چاہتا ہے اور دوسرے مقاصد بھی حاصل ہونے کو ہیں۔

(۴)  شام کو عرب ممالک نے ایک بار پھر سے عرب لیگ میں شامل کر لیا ہے، تعلقات بحال کر لیے گئے ہیں اور شام کی باز آباد کاری کے خطوط طے ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ یہ نہیں چاہ رہا لیکن یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور عرب قیادت سمجھ چکی ہے کہ انہیں اپنے پاؤں کے کانٹے خود ہی نکالنے ہوں گے۔

(۵) ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنا کر ، مصیبت میں بڑھ چڑھ کر اس کی مدد کرکے اور تعاون کی راہیں ہموار کرکے سعودی عرب نے ترکی سعودی کھیلنے والوں کے لیے کچھ چھوڑا نہیں ہے اور اتحاد و تعاون کی اس سیاست کو پروان چڑھایا ہے جس کی تمنا ہر اچھا مسلمان کرتا تھا ۔ سوڈان بحران میں وہاں پھنسے لوگوں کو نکالنے سے لے کر دونوں جرنیلوں کو اپنے یہاں بلا کر اتحاد و صلح کی کوششیں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔

ان حقائق پر غور کیجیے تو سمجھ میں آئے گا کہ یہ سب ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ہونے والے بڑے اہم فیصلے اور اقدامات ہیں اور ان کے بڑے اہم، مفید اور کارگر اثرات رونما ہوں گے لیکن ان پر جیسا چرچا ہونا چاہیے ویسا چرچا نہیں ہو رہا۔ کبھی کبھی میں غور کرتا ہوں تو افسوس بس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے تجزیہ کار بھی مسلکی اور دوسرے تعصبات سے خود کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اگر بات ایسی نہیں ہوتی تو لوگ واقعی سعودی عرب کو داد دیے بنا نہیں رہ سکتے تھے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles