اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات سے پہلے سیاسی درجہ حرارت اب ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ الیکشن ہوتے ہی جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہو گئی ہے۔ کوئی کسی کو توڑنے میں مصروف ہے اور کوئی اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش میں ہے۔ مجموعی طور پر، یوپی کی سیاست میں سسپنس اور ٹوئسٹ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوامی پرساد موریہ کے استعفیٰ سے یوپی کی سیاست میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ سوامی کے جانے کے بعد، بی جے پی اب ڈیمیج کنٹرول میں ہے، جب کہ سماج وادی پارٹی دیگر بی جے پی-کانگریس ایم ایل ایز کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی کی سیاست میں نہ صرف سسپنس ہے بلکہ اب سے باہر نکلنے اور داخلے کا مرحلہ بھی شروع ہونے والا ہے۔
یوپی میں سسپنس ہی سسپنس ہے
سب سے پہلے، سوامی پرساد موریہ سسپنس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سوامی پرساد موریہ نے بھلے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہو، لیکن وہ ابھی تک باضابطہ طور پر ایس پی میں شامل نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ معاملہ ابھی تک رائے بریلی کی اونچہار اسمبلی سیٹ پر پھنسا ہوا ہے۔ سوامی اس سیٹ پر اپنے بیٹے کو میدان میں اتارنا چاہتے ہیں، جب کہ اکھلیش اپنے موجودہ ایم ایل اے پر داؤ لگانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوامی پرساد موریا ابھی تک انتظار اور دیکھنے کے موڈ میں ہیں اگر معاملہ حل نہیں ہوتا ہے تو سیاسی نفع و نقصان کا اندازہ لگانے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ ذرائع کی مانیں تو سوامی پرساد موریہ بھی اپنے بیٹے کے لیے ٹکٹ چاہتے تھے۔ سوامی نے اپنے بیٹے کو اونچہار سیٹ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑایا ہے، لیکن اس میں ان کے بیٹے کو شکست ہوئی۔ سوامی دوبارہ اس سیٹ سے اپنے بیٹے کے لیے ٹکٹ کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن بی جے پی ٹکٹ دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔اس لئے سوامی نے استعفی دیدیا۔ اب دیکھنا ہے کہ سوامی کی مراد کوں پارٹی پوری کرتی ہے۔ سماجوادی پارٹی میں شمولیت ہوتی ہے یا پھر گھر واپسی ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔