Tuesday, April 23, 2024

2022 کا انتخاب اور بسپا۔اکالی دل اتحاد کے چیلنجز کے درمیان پنجاب میں کانگریس کا پہلا دلت وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے کا تجزیہ

(چندن کمار)

کیپٹن امریندر سنگھ کے استعفیٰ کے بعد کانگریس کی جانب سے پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی منتخب ہوئے ہیں ۔ چرنجیت سنگھ چننی کے ساتھ ، پنجاب کانگریس میں دو نائب وزیر اعلیٰ کے ناموں کا انتخاب بھی جل ہونے جارہا ہے۔ نئے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ رام دسیہ سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں ، پارٹی آئندہ اسمبلی انتخابات میں دو لوگوں کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر تمام پارٹیوں بالخصوص اکالی دل اور بی ایس پی اتحاد کو شکست دینے کی کوشش میں ہے۔ پنجاب میں دلت ووٹ بینک کا حصہ 32 فیصد ہے اور چننی کے ذریعے کانگریس اس ووٹ بینک کا زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے حق میں رکھنے کی جدوجہد میں ہے۔ اکالی دل نے بھی پنجاب میں دلت چہرے کو وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ کررہی ہے۔ وہیں بھاجپا نے بھی پنجاب میں دلت کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی جو کہ پنجاب میں تیزی سے اپنی جگہ مستحکم کر رہی ہے ، دلت لیڈر ہرپال چیمہ کو پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کا لیڈر بنانے کے اپنے فیصلے کا مسلسل فائدہ اٹھا رہی ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخابات میں پنجاب کی سیاست مرکزی محور دلت سیاست ہے اور ان تمام حالات کے پیش نظر کانگریس نے ایک ایسا راستہ تلاش کر لیا ہے جس کے مطابق وہ ان تمام جماعتوں کو سیاسی شکست دینے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ کیونکہ کانگریس نے پنجاب کو پہلا دلت وزیر اعلیٰ دے کردلتوں کو اپنے خیمے میں کرنے کی سمت میں مضبوط قدم بڑھادیا ہے۔ تاہم، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ آیا چننی کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ پنجاب کی سیاست میں کانگریس کی واپسی کو یقینی بنائے گا یا نہیں۔

ویسے بھی چنی کہیں سے بھی وزیراعلیٰ کی دوڑ میں نہیں تھے۔ کیپٹن کے استعفیٰ کے بعد پنجاب کانگریس کے سربراہ سنیل جاکھڑ کو وزیر اعلیٰ بننا تھا، لیکن سکھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس دوڑ سے باہر ہو گئے۔ پنجاب کے سکھ ریاست ہونے کے ساتھ ، سکھ چہرے کی مانگ زور پکڑ گئی اور اس کے بعد کانگریس نے دوسرے آپشنز کی تلاش شروع کر دی۔ نوجوت سنگھ سدھو نے سکھ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے عمل کے دوران بھی اپنا دعویٰ پیش کیا لیکن وہ اس بار کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔

بہر حال ، چیف منسٹر کے انتخاب کا سارا عمل اگلے الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دلت سیاست کی شکل میں چیلنج پر ٹک گیا ہے، اور چنی کی قسمت چمک گئی ہے۔ چننی کو امریندر سنگھ کا مخالف سمجھا جاتا ہے اور تنازعات سے ان کا پرانہ رشتہ ہے۔ 2018 میں چنی کا نام ایک خاتون افسر کو فحش پیغامات بھیجنے کے معاملے میں سامنے آیا تھا۔ ان تمام حالات کے باوجود کانگریس نے چننی کو وزیراعلیٰ بنا کر اپوزیشن جماعتوں کی دلتوں پر مرکوز سیاست کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔

اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں پنجاب کی دیگر تین بڑی جماعتوں کے بیانات کو دیکھنا ہوگا۔ پنجاب میں اگلے سال فروری کے مہینے میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور تمام جماعتوں نے اس حوالے سے اپنے سیاسی آپشنز کو آزمانا شروع کر دیا ہے۔ اکالی دل کے سربراہ سکھبیر سنگھ بادل نے کہا ہے کہ اگر ریاست میں ان کی حکومت بنتی ہے تو دو ڈپٹی چیف منسٹر بنائے جائیں گے جن میں سے ایک دلت برادری کا ہوگا اور ریاست کے دوآب علاقے میں بھیم راؤ امبیڈکر کے نام سے ایک یونیورسٹی بھی قائم کی جائے گی۔ ساتھ ہی بی جے پی نے اس معاملے میں ایک قدم آگے بڑھ کر بیان دیا کہ اگر ریاست میں پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو صرف دلت کو ہی وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا۔ ایسے میں کیپٹن کے استعفیٰ کے بعد کانگریس کو موقع ملا اور اس نے دلت کو متوجہ کرنے کے لئے یہ داؤ کھیل دیا۔

پنجاب ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے ، جہاں دلتوں کی آبادی سب سے زیادہ 32 فیصد ہے ، لیکن اس کے باوجود دلت سیاست کبھی بھی پنجاب کی سیاست کا محور نہیں بن سکی۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ قابل غور ہے کہ اس بار پنجاب میں مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی نے اکالی دل کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ بڑی دلت آبادی کے باوجود ، بی ایس پی آزادانہ طور پر پنجاب کی سیاست میں کوئی مضبوط مداخلت نہیں رکھتی ہے، لیکن اکالی جیسی علاقائی پارٹی کے ساتھ اس کی وابستگی نے ریاست میں ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھرنے کے امکانات مضبوط ہوگئے ہیں۔

اس اتحاد کی طاقت پہلے ثابت بھی ہوچکی ہے ، جب 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں اکالی دل اور بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد میں مقابلہ کیا اور ریاست میں 13 میں سے 11 لوک سبھا سیٹیں جیتیں۔ تاہم یہ اتحاد 1997 کے اسمبلی انتخابات میں ٹوٹ گیا اور پھر بی جے پی اور اکالی دل اکٹھے ہو گئے۔ بی جے پی اور اکالی دل کے درمیان یہ اتحاد تقریبا ڈیڑھ دہائی تک جاری رہا لیکن اب بی جے پی اور اکالی دل زرعی قوانین کے معاملے پر الگ ہو گئے ہیں۔

اکالی دل نے ایک بار پھر 2022 کے اسمبلی انتخابات کے لیے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور اس اتحاد کی کرشمائی طاقت برسراقتدار کانگریس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کانگریس نے اس چیلنج کا مقابلہ ریاست کو ایک دلت وزیر اعلیٰ دے کرکرنے کی کوشش کی ہے۔ اتر پردیش میں دلتوں کی آبادی 21 فیصد ہے اور اس کی وجہ سے مایاوتی چار بار اس ریاست کی وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئیں ، لیکن پنجاب میں ملک کی سب سے بڑی دلت آبادی ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بن سکی۔ اکالی دل کے ساتھ اتحاد کے ذریعے مایاوتی پنجاب میں متسحکم ہونا چاہتی ہے۔ اور اکالی دل بھی بی جے پی سے الگ ہونے کے بعد اقتدار میں واپسی کی منتظر ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جہاں کانگریس کو 77 ، اکالی دل کو 15 ، عام آدمی پارٹی کو 20 اور بی جے پی کو تین اور دیگر جماعتوں کو دو نشستیں ملی تھیں۔ ووٹ کے فیصد کے لحاظ سے ، 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ، کانگریس کو 38۔5 فیصد ، اکالی دل کو 25.2 فیصد ، آپ کو 23.7 فیصد اور بی جے پی کو 5.4 فیصد ملے تھے۔

کانگریس کے سامنے بڑا چیلنج اپنی ماضی کی کارکردگی کو دہرانا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ، پنجاب کانگریس اندرونی گروہ بندی سے دوچار ہے اور اس گروہ بندی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے امریندر سنگھ کو ہٹاکر چنی کو وزیر اعلی بناکر نہ صرف اس گروہ بندی کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے بلکہ اکالی دل ۔ بسپا اتحاد اور عام آدمی پارٹی کی جانب سے درپیش چیلنجز سے برآ ہونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles