(ثنا۶اللہ صادق تيمی)
ہم انسان مادی وسائل کو دیکھتے ہیں، محسوسات پر ہماری نظر ہوتی ہے، اس لیے نعمت کو دیکھنے کا زاویہ بھی ہمارا بڑا تنگ ہوتا ہے۔ جس کسی انسان کے پاس مال ہو، دولت ہو اور دوسرے مادی اسباب ہوں، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نعمتوں میں ہے۔ ہماری کوتاہ بینی ہمیں بالعموم اس سے آگے دیکھنے نہیں دیتی جب کہ نعمتوں کا تعلق صرف ظاہری اسباب سے نہیں۔ اللہ پاک کے احسانات کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ مال ودولت کی نعمت نظر آتی ہے لیکن سکون، اطمینان اور قلبی راحت کی نعمت پر نظر نہیں جاتی۔ بہت سے لوگوں کو دیکھیے کہ بظاہر ان کے پاس مادی اسباب کی کمی ہے لیکن وہ ہشاش بشاش ہیں، اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں، دوسروں کے کام آ رہے ہیں، خود عافیت میں ہیں لیکن اس بڑی نعمت پر رشک کرنے والا کوئی نہیں۔
ایک عالم کسی مسئلہ کی گتھی سلجھانے کے بعد جو لذت محسوس کرتا ہے، اس لذت تک کوئی دوسرا پہنچ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اس نعمت کو نعمت سمجھنے والے آپ کو ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔ اسی لیے بعض دنیا بیزار بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہم جس سکون اور عافیت میں جیتے ہیں اگر سربراہان مملکت کو معلوم ہو جائے تو وہ ہم پر رشک کریں اور ہمارے خلاف جنگ چھیڑ دیں۔
ہم پر بحیثیت مجموعی شکوہ شکایت کی نفسیات کا غلبہ ہے، ناشکری ہمارا ظاہرہ بنتی جا رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ملی ہوئی نعمتوں کا احساس نہیں، بلکہ درست تعبیر یہ ہوگی کہ ہم ایمان کو، تقوی کو، عافیت کو، علم کو، شعور کو، آل اولاد کے صالح ہونے کو اور صحت جیسی نعمت کو نعمت کی نظر سے دیکھ ہی نہیں پاتے۔ تبھی تو ان نعمتوں کی موجودگی میں بھی ہم شکوہ کناں رہتے ہیں۔
رمضان المبارک کے اس مہینے میں خود احتسابی کا ایک زاویہ یہ بھی روشن ہونا چاہیے کہ ہم اللہ کی دی گئی نعمتوں پر شکر گزاری سے کام لیں، اپنے ارد گرد جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ کتنے لوگ ہیں، مسلمان ہیں، روزہ نہیں رکھ رہے، کتنے ہیں کہ بیمار ہونے کے سبب رکھنے سے عاجز ہیں، کتنے ہیں کہ روزہ رکھ کر بھی گناہوں میں لت پت ہیں اور کتنے ہیں کہ رکھنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، پھر ذرا خود کو دیکھیے تو اللہ تعالیٰ کے لیے ایک احساس ممنونیت پیدا ہوگا اور زبان پر دعا جاری ہو جائے گی۔
الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به و فضلني على كثير ممن خلق تفصيلا.