(ڈاکٹر محمد وسیم، نئی دہلی)
سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ایک بار پھر سے بحال ہو گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال کرانے میں چِین نے ثالثی کا کردار ادا کیا، 2016ء میں ایران میں سعودی سفارت خانہ پر حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے مکمل طور پر تعلقات ختم کر لئے تھے، لیکن 6 سال بعد بعض اصولوں کی بنیاد پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس عمل سے ایران کے ذریعے جاری تخریب کاری میں نہ صرف کمی آۓ گی بلکہ عرب ملکوں خاص کر سعودی عرب پر قابض ہونے کا ایران کا منصوبہ چَکنا چُور ہو گیا ہے۔
خبروں کے مطابق دو مہینے کے اندر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور سفارت خانے کھولنے کا عمل مکمل کیا جاۓ گا، ان کے درمیان سیکیورٹی، تجارت، معیشت، ٹیکنالوجی، سائنس اور کھیلوں وغیرہ کے قدیم معاہدے پر اتفاق کیا گیا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
ایران میں 1979ء میں خُمینی انقلاب ہوا، ایران نے اس انقلاب کو “اسلامی انقلاب” کا نام دیا اور کئی سالوں تک اس انقلاب کو عرب کے سنّی ممالک میں پہنچانے کے لئے بڑی محنت کی گئی، اس کے نتیجے میں خطے میں کئی مسلّح جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں، جنھوں نے اسلام کے دشمنوں کو تو نقصان نہیں پہنچایا لیکن عرب اور مسلم ممالک میں انتشار، اختلاف اور بدامنی کو بہت بڑھاوا دیا، یمن میں متشدّد حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، ان سب کے باوجود سعودی عرب نے تشدّد کے راستے کو اختیار نہیں کیا، بلکہ پُرامن بات چیت، اپنے ملک کے تحفظ اور مسلم ممالک کی ترقی پر زور دیا۔
کہا جاتا تھا کہ سعودی عرب تو امریکہ کا غلام ہے اور امریکہ کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا، جس دن سعودی عرب نے امریکہ کی مخالفت کی اس دن سعودی عرب ختم ہو جاۓ گا، لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ کم عمر شہزادہ محمد بن سلمان نے ایسے ایسے عالمی فیصلے لئے جس سے کہ امریکہ بھی پریشان ہو گیا، سعودی عرب نے ترکی، قطر، یمن اور عراق سے رابطے قائم کئے، شہزادہ نے ثابت کر دیا کہ اب عالمی فیصلے ہم خود کریں گے، اب ہماری مرضی سے پالیسی بنائی جاۓ گی۔
سعودی مخالفین کہتے تھے کہ بہت جلد سعودی عرب امریکہ کے حکم پر اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لے گا اور امریکہ دباؤ بھی بنا رہا تھا، مگر سعودی عرب نے نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی امریکی دباؤ کو خاطر میں لایا، جس سے کہ مخالفین کو ایک بار پھر سے تاریخی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، سعودی عرب اورایران کے درمیان تعلقات سے امید کی جارہی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تشدّد میں کمی آۓ گی، اب دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ سعودی عرب آزادانہ فیصلے لے رہا ہے، سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ ایران سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا مطلب تہران کے ساتھ تمام اختلافات کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ ایک سیاسی حل تک پہنچ کر خطّے میں تشدّد کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔