(ڈاکٹرصغیر احمد، ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
افغانستان پر طالبان کے تسلط کی وجہ سے آج عالمی پیمانے پر یہ ملک سرخیوں میں ہے۔ کوئی طالبان کے تلسط کو جابرانہ تلسط گردان رہا ہے، تو کوئی افغانستان کی جمہوریت کے لئے طالبان کو ایک بڑا خطرہ بتا رہا ہے، کوئی طالبان کو افغانی عوام بالخصوص خواتین افغان کے لئے جابر تصور کررہا ہے۔ یہ دنیا کی اپنی اپنی سوچ اور اپنا نظریہ ہے وہ چاہے جس عینک سے طالبان اور طالبانی اقتدار کو دیکھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو افغانی جمہوریہ میں جو آزادی میسر تھی اب نہیں ہوگی۔ کیونکہ طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان کردیا کہ اب یہاں عرف عام والا عالمی جمہوری آئین نہیں بلکہ اسلامی آئین نافذ ہوگا۔ اب اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ اسلامی آئین میں افغانی عوام کو وہ جمہوری طرز زندگی نہیں ملے گی جو عام معنوں میں پوری دنیا جانتی ہے۔ افغانستان کے پرانے جمہوری آئین جس میں خواتین کو اسکرٹ پہننے کی آزادی تھی، یا عالمی سطح پر جن ممالک میں جمہوری آئین نافذ ہے وہاں کی خواتین آزادی نسواں کے نام پر مغربی کلچر کی جس عریانیت کے دام فریب میں پھنس رہی ہیں بلا شبہ طالبان اس آزادی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھے گا۔ کیونکہ جب اسلامی آئین نافذ ہوگا تب نام نہاد جمہوریت کا افغانستان سے نام ونشان مٹ جائے گا۔
یہاں یہ سوال اہم نہیں ہے کہ طالبان افغانستان میں جمہوریت کو ختم کرکے اسلامی آئین کے نفاذ میں عالمی برادری کو اپنے تئیں کس طرح مطمئن کرے گا یا پوری دنیا کے سامنے اپنی اسلامی سلطنت کے قیام کا آئینی ڈھانچہ کس طرح پیش کرے گا، بلکہ سوال یہ ہے کہ طالبان اپنے اسلامی آئین کو ان افغانی عوام کے لئے کیسے نافذ کر گا جو صدیوں سے متنوع نسلی اور قبائلی نظام حیات کو ہی اپنا آئین سمجھتی رہی ہے۔ حال ہی میں تاجک رہنما اور سابق وزیرِ خارجہ افغانستان صلاح الدین ربانی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کو دیے انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان ایسا ملک ہے جس پر کوئی ایک گروہ حکومت نہیں کر سکتا یا کوئی ایک گروپ تنہا وہاں امن و استحکام قائم نہیں کر سکتا۔ یہ بات بہت حد تک صحیح بھی ہے کہ افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سرداری آئین اور قبائلی نظام صدیوں سے حاوی نظر آتا ہے۔ افغانستان کثیر لسانی اور نسلی گروہ بندی کا مجموعہ ہے۔ وہاں کئی قومیں ہیں جن کی اپنی تہذیب وثقافت ہے، جن کے اپنے اصول وضابطے ہیں، وہاں کی بہت سی قبائلی قومیں اپنی ثقافت اور اپنے اصول کے سامنے کسی بھی جمہوری آئین کو ترجیح نہیں دیتیں۔ اس کی مثال پچھلے 49 برسوں میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جب ظاہر شاہ کی بادشاہت کو ختم کرکے محمد داؤد خان نے سب سے پہلے 1972میں افغانستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی۔ دنیا نے مشاہدہ کیا کہ داؤد خان پانچ برس حکومت پر قابض رہا لیکن اس نے بھی افغانستان کے لئے کوئی حتمی جمہوری آئین پیش نہیں کیا۔ کہنے کو تو اس نے جمہوری طرز پر انتخابات وغیرہ بھی کرائے لیکن یہ ملک دیگر جمہوری ممالک کی طرح کوئی منظم اور ٹھوس دستور یا آئین نہ دیکھ سکا۔ اور دنیا نے دیکھا کہ جمہوری کی داغ بیل ڈالنے والا محمد داؤد خان اپنے اہل خانہ سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ آج بھی افغانستانی عوام اپنے ملکی آئین سے زیادہ قبائلی دستور اور سرداری آئین سے محبت کرتی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اکثریتی افغانی قوم مذہبی امور میں اسلام کی تعلیمات پر ہی عمل کرتی ہے۔ لیکن ان کی معاشرتی طرز زندگی کا آئین یا دستور جو کہہ لیں وہ اب تک قبائلی نظام کے اردگرد ہی گھوم رہا ہے۔
افغانستان کی قوم پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، عرب، ترکمان، بلوچ، پشائی، نورستانی، ایمق، کرغز، قزلباش، گوجر، براہوی، دیگر قبائل اور لسانی گروہوں پر مشتمل ہے۔
وہیں کچھ سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے بظاہر تو اعلان کردیا ہے کہ ہماری سابقہ حکومت سے مختلف ہوگی، یعنی کہ جس طرح طالبان نے اپنی سابقہ حکومت میں اسلامی قانون کے نفاذ میں سختی برتی تھی اب اس گرد سختی نہیں برتی جائے گی۔ طالبان کے اس قول کو تسلیم کرنے پر بہت سے سیاسی ماہرین متفق نہیں ہیں۔ جن میں سر فہرست سیکوریٹی امور کے ماہر کامران بخاری کا کہنا ہے کہ حال ہی میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا تو طالبان کی طرف سے یہ بیان آیا تھا کہ خواتین پردے کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی روزمرہ کی زندگی گزار سکتی ہے۔ لیکن دوچار دن بعد اب طالبان کا یہ بیان سامنے آرہا ہے کہ افغانی عورتیں کام کے سلسلے میں باہر نہیں جاسکتی، یعنی کہ دفاتر یا دیگر جگہوں میں عورتیں کام نہیں کریں گی۔ اب ایسے میں خواتین کا طالبان کے اسلامی آئین کے نفاذ میں کیا رد عمل ہوگا یہ غور کرنے والی بات ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی وہ عورتیں اسلام کی پیروکار تھیں اور آج بھی اسلام کی ماننے والی ہیں، اس سے قبل وہ عورتیں جب قبائلی دستور کی حامی تھیں تو ان کے لئے باہر جانے اور کام کرنے کی شدید ممانعت نہیں تھی۔ اب اسلامی آئین کے نفاذ کے بعد انہیں اپنے گھروں میں ہی رہنا ہوگا، کام کے لئے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، جیسا کہ سعودی عرب یا دیگر اسلامی ممالک میں ہے۔ کیونکہ اسلام نے مرد کو قوام بنایا ہے یعنی رزق کی حصولیابی کا ذمہ مردوں کے سر ہے۔
اب ان سارے نکات کو دیکھتے ہوئے طالبان کے لئے یہ مشکلات ہیں کہ وہ اپنے ملک کی عوام کو اسلامی آئین پر مکمل عمل پیرا ہونے کے لئے کس حد تک اور کیسے راضی کرتے ہیں۔ اگر افغانیوں نے صدیوں پرانے اپنے قبائلی دستور کو ترک کردیا جو آسان نہیں ہے، تب تو طالبان کا ہدف کامیاب ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو ماضی میں وہاں ہوتا رہا ہے، یعنی کہ قبائلی دستور پر ہی اسلامی آئین کا ملمہ چڑھا ہوگا۔