(ترہت نیوز ڈیسک)
دنیا کے تمام مذاہب میں انسانیت کی بقا، اعلیٰ اخلا ق کی تعلیم، بہتر معاشرتی نظام، حیات اور بعد الممات کی ساری تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ ہرمذہب دنیاوی زندگی کو بہتر گذارنے کی تعلیم دیتا ہے، اور دنیاوی زندگی کو دارالعمل قرار دیتا ہے، یعنی انسان اس دنیا میں جو کچھ اچھا یا برا عمل کرے گا اسکا بدلہ اسے آخرت یعنی مرنے کے بعد ملے گا۔ ہر انسان اپنے دنیاوی اعمال کی بنیاد پر جنت یا جہنم میں داخل ہوگا۔
ان سب تعلیمات کے باوجود دنیا میں مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں، کوئی عیسائیت کا پیروکار ہے تو کوئی جین، بدھ، ہندومت اور یہودیت کا، کوئی اسلام تو کوئی دیگر مذاہب کی پیروی کرتا ہے۔ اور ہرمذہب کا پیروکار اپنے اپنے مذہب کو بہتر سمجھتا ہے، یہ الگ بات یہ کہ ایک سچا مذہبی پیروکار وہی ہوتا ہے جو اپنے مذہب کی پیروی کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کا مکمل احترام کرے۔
ہاں انسانی فطرت اور اپنی سوچ اور دل دماغ کے اعتبار سے ہر انسان اس بات کے لئے مکمل طورپر آزاد ہے کہ اسے کس مذہب کی پیروی کرنی ہے۔ اکثروبیشتر لوگ پیدائشی طورپر جس مذہب کے ماننے والے کے یہاں پیدا ہوتے ہیں اسی مذہب کو اپنانے لگتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سن شعور کو پہنچنے پر مذاہب کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے مذاہب کی تعلیمات کا موازنہ کرتے ہیں۔ لیکن جو انسان تقابل ادیان کے بعد ایک خاص مذہب کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس مذہب کو اپناتا ہے تو یہ اس انسان کے لئے واقعی بہتر مذہب ہوگا۔ اور عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب انسان کے اندر تعلیمی شعور آئے تو اسے چاہئے کہ مطالعہ کرے اور تقابل ادیان کے بعد ہی کسی خاص مذہب کی پیروی کرے۔
آئے دن ایسی خبریں عالمی سطح پر آتی رہتی ہیں کہ فلاں شخص یا گروہ نے فلاں مذہب کو چھوڑکر فلاں مذہب قبول کرلیا ہے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی مفاد کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مختلف مذاہب کو پڑھتے سمجھتے ہیں اور اس کی تعلیمات کا موازنہ کرکے کسی بہتر نقطہ پر پہنچتے ہیں اور پھر اس مذہب کو حقیقی سمجھتے ہوئے اسے اپناتے ہیں۔ موازنہ کرنے والا شخص اگر تعلیم یافتہ ہے تو بہت حد تک وہ بہتر تعلیمات سے مزین مذہب کا انتخاب کرتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ امریکہ کی معروف یونیورسٹی (University of Hawai) کے پروفیسر ڈاکٹر جیمس فرانکل Dr. James Frankel کا بھی ہے جنہوں نے بڑے غوروخوض اور مطالعہ کے بعد اسلام مذہب قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ جامعہ ہاوای دنیا کی 500 بہترین جامعات میں سے ہے۔ جہاں 50 ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جیمس فرانکل نے اپے اعلان میں کہا ہے کہ میں اللہ کی معرفت کا پیاسا تھا۔ میں نے بہت سوچا لیکن میرا دل و دماغ مسیح علیہ السلام کو رب ماننے کیلئے تیار نہیں ہوا، پھر میں بودھ مت، یونانی اور رومی فلسفہ سمیت کئی ادیان و مذاہب کا مطالعہ کیا۔ لیکن میرے سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ پھر قرآن کی طرف متوجہ ہوا۔ اسے پڑھنا شروع کیا اور پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ قرآن نے نہ صرف میرے سوالات کا جواب دیا، بلکہ میرے باطن کو بھی زیر وزبر کردیا۔ ایسا کسی کتاب کے پڑھنے سے نہیں ہوا تھا۔ عجیب کتاب ہے جو ڈائریکٹ روح کو جھنجھوڑتی ہے۔ میں پڑھتا جاتا اور آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگی رہتی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں کسی انسان کا نہیں، بلکہ خالق کا کلام پڑھ رہا ہوں۔ پھر میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب میں نماز سیکھ رہا ہوں۔ اسلام نے مجھے بالکل دوسرا شخص بنا دیا ہے۔ میری تمام نو مسلموں کو نصیحت ہے کہ دینی احکام کو صبر سے تھامے رکھیں، عنقریب اللہ تعالیٰ کشادگی فرمائے گا اور فضا بدل جائے گی۔ ساتھ ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ آپ سب کا شکریہ!
اب کچھ تو ہوگا جو ڈاکٹر جیمس فرانکل جیسے ہزاروں لوگ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر آئے دن اسلام قبول کررہے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلام ہی سب سے بہتر ہے، لیکن اسلام بہت بہترمذہب تو ضرور ہے جو ایسے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں گھر کررہا ہے، اور اسے اپنا گرویدہ بنا رہا ہے۔