Saturday, December 28, 2024

تعلیم کو تجارت بننے سے روکنے کی سمت میں چین کا قدم قابل ستائش

ڈاکٹر صغیر احمد(ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
آج دنیا کے تقریباً اکثروبیشتر ممالک میں تعلیم تجارت بن چکی ہے۔ تعلیم ایک ایسا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ اس کاروبار کو کرنے کے لئے فرد سے لے کر جماعت تک تگ ودو میں مصروف ہے۔ آج بڑی بڑی کمپنیاں آن لائن تعلیم کے نام پر تجارت کررہی ہیں۔ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے نام پر طلبا سے لاکھوں روپئے اینٹھنا ان کمپنیوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ آج کوئی بھی طالب علم اعلیٰ تعلیم سے اسی وقت سیراب ہوسکے گا جب اس کے پاس ان تعلیمی تجار کو دینے کے لئے موٹی رقم ہو۔ ہرطرف تعلیم کے نام پر لوٹ کا بازار گرم ہے۔ گاؤں دیہات کے کوچنگ سینٹروں سے لے کر بڑے شہروں کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تجارت کو تعلیم کا خوبصورت لباس پہناکر رقص کرایا جارہا ہے اور تعلیم کی تشنگی لئے طلبا بڑی آسانی سے ان کے دام فریب میں پھنستے جارہے ہیں۔ لیکن حال ہی میں چینی حکومت نے اپنے ملک میں تعلیم کے اس تجارت پر سختی کے ساتھ روک لگا دیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ آج ہمارے ملک میں تعلیم کا جو ڈھانچا ہے یعنی کہ اس جس نہج سے تجارتی تعلیم کی روایت عام ہے اس سے ہمارے بچوں کا مستقبل اقتصادی،جسمانی اور ذہنی ہراعتبار سے خسارہ میں ہوگا، پرائیویٹ کوچنگ یا پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑھتی تجارت سے ہمارے بچوں کے اوپر گراں قدر بوجھ پڑے گا۔ تجارتی تعلیم کے اس نہج سے طلبا میں لیاقت آئے یا نہ آئے مگر ان کی جیبیں ضرور خالی ہوجائیں گی۔
واضح رہے کہ پرائیویٹ تعلیم یا اسکول سے باہر کی تعلیم یعنی نجی کوچنگ وغیرہ پر پوری طرح سے پابندی عائد کردیا ہے۔ چین میں اب کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ کو اپنی تجارت چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی کوئی آئن لائن تعلیمی کمپنیاں اپنا تعلیمی بازار سجا سکیں گی۔
چین کے اس فیصلے سے پوری دنیا انگشت بدنداں ہے، سب کوئی حیرت کی نگاہ سے چین کو دیکھ رہا ہے، مغربی ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ چین کے اس قدم سے اس کا بڑا خسارہ ہوگا۔ اور یہ سچ بھی ہے۔ کیونکہ بہت سارے ممالک میں چین کو اقتصادی طورپر جھٹکا لگا ہے۔ تقریباً دو سو کمپنیاں چین میں اپنا آن لائن تعلیمی تجارت کررہی تھی، ان سب کو اب چین سے باہر کا راستہ دکھایا دیا گیا ہے۔ ان کمپنیوں نے جو معاہدے کئے ہوں گے ان معاہدوں کو ختم کرنے کی صورت میں چین کو بلاشبہ خسارہ جھیلنا ہوگا۔
لیکن چین نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہمیں ملک کی معیشت کا خسارہ منظور ہے لیکن طلبا کا اقتصادی خسارہ منظور نہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ تعلیم کے اس صرفے کا بڑا بوجھ طلبا پر پڑتا ہے، اور تعلیمی کھائی بن رہی ہے۔ یعنی کہ جو غریب طلبا ہیں وہ بہتر تعلیم سے قاصر رہ جاتے ہیں وہیں کچھ امیر طلبا پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن میں بے تحاشہ پیسہ خرچ کرکے کچھ حد تک بہتر تعلیم حاصل کرلیتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب ایک جیسی تعلیم حاصل کرنا تمام طلبا کا بنیادی حق ہے۔ لیکن افسوس کہ تعلیم کے اس تجارتی جال میں پھنس کر بہت سے طلبا اپنا بہت کچھ مال ومتاع کھوکر بہت تھوڑی سی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں یا دیگر اعلیٰ تعلیم کی تمنا لئے غریب ونادار بچے سڑکوں پر ہی بٹھکتے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے ایک بچے کو الگ الگ مضامین کے تعلیم کے لئے پرائیویٹ اداروں میں لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اب جن بچوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہے ان کے ہاتھ صرف مایوسی ہی لگتی ہے۔
آج عالمی سطح پر بائی جوز لرننگ یا دیگر بہت ساری کمپنیاں ایسی ہیں جو ابتدائی کلاس کے بچوں سے لے کر ڈگری تک کی تعلیم کی آن لائن سہولت فراہم کرتی ہیں۔ جو ایک ملک میں کئی سو کروڑ کی تعلیمی تجارت کررہی ہیں۔ آکاش انسٹی ٹیوٹ ہو یا اس طرح کی دیگر آف لائن یا آن لائن کمپنیاں ہوں سبھوں کی اولین ترجیح پیسہ کمانا ہے۔
ہمارا ملک بھارت بھی ایک جمہوری ملک ہے یہاں بلا شبہ یہاں بھی تعلیمی لوٹ کا بازار گرم ہے۔ کوٹہ، بنگلور، دہلی یا دیگر ایسے کئی مقامات ہیں جہاں گارجین حضرات اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجنا اپنی حصولیابی سمجھتے ہیں۔ کوٹہ میں ایسے ایسے تعلیمی ادارے یا کوچنگ سینٹر ہیں جہاں ایک ایک مضمون کے لئے پچاس پچاس ہزار روپئے لئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم دوچارسال کوٹہ میں رہے تو اس کے رہنے کھانے، آمدورفت اور تعلیمی اخراجات کا اتنا بوجھ بڑھ جاتا ہے کہ بھارت کے ۸۰ (اَسّی فیصد) گارجین اس بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ اب بھلا بتائیے کہ اتنی مہنگی تعلیم سے کتنے فیصد طلبا کا بھلا ہوگا؟ کیا تعلیم کا بنیادی حق تمام طلبا کو یکساں مل پا رہا ہے؟
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری اسکول، کالجیز یا یونیورسٹیاں نہیں ہیں، بلکہ تعلیم کا سارا ڈھانچہ ہمارے ملک عزیز میں بھی موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں اعلی اور بہتر تعلیم کے نام پر تعلیم کو تجارت بناکر لوٹ گھوٹ کا بازار گرم ہے۔ اور سرکار اس پر قدغن لگانے کے بجائے اسے فروغ دینے میں مصروف ہے۔
چین ہمارا حریف ہے۔ کئی معنوں میں ہم اسے اختلاف رکھتے ہیں اور رکھنا بھی چاہئے کیونکہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہم نے اس کے مصنوعات کا بھی بائکاٹ کررکھا ہے۔ اس نے ہمیں ہر موڑ پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن محض اس بنا پر چین کے اس قدم کو ہم قابل مذمت قرار نہیں دے سکتے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کی بازیابی ہر ملک کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ اگر چین نے تعلیم کے بازار کو بند کیا ہے تو اس کے اس قدم کی ستائش ہونی چاہئے۔ آج ہمارے ملک میں ذہین لڑکے محض اس وجہ سے اعلی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں جتنا اس تعلیمی بازار کو درکار ہے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles