Saturday, October 19, 2024

چند سوالات اور چند گزارشات

ابوافہم عبادصدیقی( جدہ سعودی عرب )
آپ کی سیاسی بازی گری، گرم جوش انتخابی سرگرمی، غنڈہ گردی اورعہدہ طلبی انتہا کو پہنچی ہوسناکی نے، ایک ایسے فتنے کو جنم دیا ہے جس سر بازار اصحاب جبہ ودستار اور گدی نشین سجادگان کی آبرو نیلامی کا وہ میلہ لگایا ہے؛ جہاں آبرو باختہ بیسوائیں بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ رام رام کر کے تھوکتی گزر جاتی ہیں۔۔ مگر آپ پھر بھی غرور حسن لیے سربازار مریدان پیر ست سے ڈگڈگی پٹواتے پھرتے ہیں۔۔،
آپ کے ناعاقبت اندیش مریدوں اور روٹی کے مارے ملازموں نےہر طرف طوفان بپا کر رکھا ہے، علما کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں، بزرگوں کی پگڑیاں نہ صرف اچھالی جا رہی ہیں، بلکہ آپ کے نہایت ہی کوڑھ مغز ، بے علم اور منہ بے لگام ننھے بالے امارت کے وقارکو مجروح کئے دیتے ہیں، کہیں خدا ناخواستہ عہدہ و منصب کی یہ چاہ اور جناب کی چاک دامانی کسی غلط انجام کا پیش خیمہ نہ بن جائے اور امارت کی صد سالہ تاریخ کسی تیز و تند کالی آندھی کی شکار نہ ہوجائے۔
بہر کیف یقین کیجیئے بِہار کے بہادر اپنا سر خم نہیں کریں گے اور امارت کی آبرو بچا نے کے لیے اپنی جھولی سے وہ منتر نکالیں گے کہ، آپ کی ڈپلومہ انجینئرنگ کے سارے سائن کوس تھٹیا الفا بیٹا گاما ۔۔۔ ہوا ہو جائیں گی۔
اگر آپ بڑے باپ کی اولاد ہیں، آپ کے خواص آپ کی مافوق الفطرت تربیت یافتہ ہونے کا بھر پالے ہوئے ہیں، آپ بڑے خانوادے کے جانشیں، ایک معروف خانقاہ کے گدی نشیں اورمہذب سماج کے تعلیم یافتہ فرد ہیں ۔۔۔
آئیے ذرا ان چند سوالوں کے جوابات دینے کی زحمت اٹھائیے، تاکہ آئندہ عوام وخواص زحمت سے بچ جائیں۔۔
1۔ دستور امارت شرعیہ کے مطابق امیر کی جو کلیدی شرطیں ہیں؛ کیا وہ سب آپ میں پائی جاتی ہیں؟

  1. کیا آپ کسی روایتی مدرسہ کے باضابطہ فارغ ہیں؟ یا قدیم طرز پر قرآن وسنت فقہ اور علوم اسلامیہ کے ماہرین سے مختلف ضروری علوم کی بالمشافہ ایسی تحصیل کی ہے؛ جس میں ان بالغ نظر اور ممتاز علماء نے آپ کو اپنی سند سے سرفراز کیا ہو؟!
  2. کیا آپ دونوں بھائیوں میں سے کسی کو مولانا ولی رحمانی صاحبؒ نے مدرسہ کی مکمل دینی تعلیم دلائی ہے؟ یاصرف مکتب کی ابتدائی تعلیم آپ دونوں بزرگوں کا مبلغ علم ہے؟!
    4.  ہندوستانی مسلم سماج کےلیے آپ نے کیا مذہبی و دینی خدمات انجام دی ہیں؟!
  3. خاندانی نسبت اگر الگ کر دی جائے تو آپ کی شخصیت میں ایسی کون سی دینی و مذہبی خوبیاں ہیں؛ جن کی وجہ کر اس “منصب امیری” کےلیے آپ کا انتخاب کیا جائے؟
  4. کیا عہدہ امارت کےلیے آپ سے ہزار درجہ بہتر افراد نہیں رہے، جو آپ نے اس عہدہ پر لالچ کی نگاہ گاڑ رکھی ہے؟
  5. کیا امارت شرعیہ کوئی خاندانی وراثت ہے جو آپ کا استحقاق ہے؟!
  6. کیا آپ کو نہیں  لگتا کہ اس عہدہ طلبی اور نفس پرستی کی وجہ سے  امارت اختلاف و انتشار کا شکار ہوگیا ہے؟
  7. امارت شرعیہ کی خدمت و ترقی کےلیے اس عہدہ کے سوا کیا کوئی اور راستہ آپ کی نظر میں باقی نہیں رہا؟
  8. ابو طالب رحمانی، فہد رحمانی، حاجی عارف اور آپ کا کاسہ لیس شمشاد قاسمی کا املا کردہ طریقہ انتخاب ، اگر ارکان شوری و ارباب حل و عقد میں سے اکثر کو ناپسند ہے، تو کیا وہ سب بیوقوف ہیں؟! ان کے اعتراض کی کوئی وقعت نہیں ہوگی؟!
  9. کیا یہ آپ کو اچھا لگتا ہے کہ فہد رحمانی در در پر جا کر، جھوٹ و فریب کا سہارا لے کر گداگری کرے؟ آپ کےلیے بھیک طلب کرتا پھرے؟! اس شخص کی فرعونیت اور رعونت ان تمام لوگوں پر عیاں ہوچکی ہے۔
    اپنے ضمیر پر دستک دے کر ان سوالات کے جوابات خود ہی دیجیئے گا، کسی نا ہنجار اور برہنہ گفتار بھکت کے حوالے مت کیجیئے گا۔
    ایک نگاہ غلط ان گزارشات پر بھی کرلیں:
    الف:  ترقی کا عمل کئی منزلوں سے گزر کر اور برسوں کا سفر طے کرکے مکمل ہوتا ہے، ایک جست میں کامیابی ہاتھ نہیں آتی۔ اس کےلیے جد و جہد کرنی ہوگی، صبر کے آغوش میں کھیلنا ہوگا، ایثار و قربانی کے گہرے نقوش کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر  آپ واقعی کچھ بننا اور کرنا چاہتے ہیں تو؛ آئیے ہندوستان کی خاک چھانیئے، امارت کی بنیادوں میں اپنے خون و پسینہ کا آمیزہ شامل کیجیئے، بہار کی گلی کوچوں کی گرد و غبار سے راہ و رسم بڑھائیے، کبھی طوفان اور باد و باراں میں کیچڑ سے لتھڑی ہوئی گلیوں میں دکھیاروں کا درد محسوس کرنے جائیے، آگ برساتی چلچلاتی دھوپ میں صحرا کی گرم ریت پر آبلا پائی کی آزمائش سے گزریں ، کھلے آسمان کے نیچے آفتاب کی سوزش و تپش میں ائیر کنڈیشن سے سہولت پسند پیشانی کو عرق آلود کیجیئے۔
    یاد رکھیئے ! ان زینوں سے گزر کر آئیں گے تو قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔
    اور جناب والا ابھی آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی دل فریب اداؤں، زلف جاناں کی طرح بل کھاتی شاہ راہوں، صبح و شام کی رونق و رنگین فضاؤں اور ڈالر کی مدہوش کرنے والی چھاؤں سے نکل کہاں پائے ہیں؟!
    ابھی تو شب وصل کی انگڑائیاں بھی ختم نہیں ہو پائی ہیں۔

ب : حسن آغاز حسن انجام کا فرستادہ ہوتا ہے۔ مگر آپ کا تو آغاز  ہی نہایت بدنما رہا، ملک کے تمام قابل ذکر علما ان ناجائز حرکتوں سے نالاں ہیں اور دونوں بھائیوں سے دل برداشتہ ہیں۔
کاش آپ نے پہلے اپنی ساخت و شناخت بنانے کی کوشش کی ہوتی، لوگوں کا اعتماد حاصل کیا ہوتا، مولانا ولی رحمانی صاحبؒ ساری عمر انتظار کرتے رہے، اور عمر کے آخری پڑاؤ میں امیر بنا ئے گئے، آپ کو اتنی عجلت کیوں دامن گیر ہے؟!
کام کیجیئے، کامیابی خود قدم چومے گی !
ج : غلطی کا کفارہ ادا کیجیئے !
اگر مدرسہ کی دینی تعلیم کو اہمیت دی ہوتی تو یہ رسوائی ہاتھ نہ آتی۔ خدا جانے اتنے بڑے جامعہ کے مہتمم کی اولاد مدرسی تعلیم سے کیوں کر محروم رکھی گئی؟!
اب بھی وقت گیا نہیں، صاحبزادگی کے خمار سے باہر نکلیں اور پندار خودی کے غبار کو صاف کریں، باضابطہ کسی مدرسہ میں زانوئے تلمذ تہ کریں، عالمیت و فضیلت کی تکمیل کریں ، پھر فقہ و فتاوی میں درک پیدا کریں، نظام قضا اور قانون شریعت سے آگہی حاصل کریں، تب جا کر کسی شمار میں آئیں گے۔ یاد رکھا جائے محض عربی زبان کے ڈپلومہ کورس کوئی عالم دین یا فقیہ شرع متین نہیں بن سکتا ہے۔ ابو جہل سے لے کر سیسی تک سب ہی عربی داں رہے ہیں۔
اور ہاں اپنی نسل نو کو سجادگی کی دہلیز اور امارت کے در تک لانا چاہتے ہیں تو انہیں بھی علم دین سے آراستہ کیا جائے، ورنہ اگلی نسلوں کو بھی اسی طرح روز آزمائی کرنی ہوگی۔
عجیب اتفاق ہے، آپ کے گرد بھی جاہلوں کا ہالہ بنا ہوا ہے، اور کئی “خود ساختہ مولانا” خود والد مرحوم کےدست گرفتہ رہے ہیں، انہیں کی”مسیحائی” تھی کہ ان لوگوں کو اس “دشت کی سیاحی”نصیب ہوئی۔
د : کامیاب انسان کسی عہدہ  کا پابند نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ پیشے سے ایک انجینئر ہیں، تو اپنے میدان میں کوئی کارنامہ یا کرشمہ کر دیکھائیں، یہ ہلڑ بازیاں، ایک دینی و شرعی ادارہ پر قبضہ کی کوشش کے لیے اخلاق و مروت کے خلاف اور صاحب جبہ ودستار کی شان کے لائق نہیں۔؟!
جامعہ رحمانی کے خستگی کی خبر لیجیئے، اس کے گرتے ہوئے معیار کو سنبھالیئے، اندازہ لگائیے کہ آج بہار کے مدرسوں کی فہرست میں اس کا کیا مقام ہے؟! یہ تو آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح زندگی کے بیسیوں  سال جس پیشہ سے جڑے رہے وہاں کون سے گل کھلائے؟! وہاں کیا دریافت یا انکشاف کیا؟!  اگر آپ اس میدان میں واقعی کوئی کامیاب انسان ہوتے تو کبھی یوں سمت سفر نہ بدلتے۔ کام کیجیئے، کام بولتا ہے۔ طوفان و بدتمیزی اور ہلڑ بازی سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
ھ : سجادگی جذبہ خدمت پیدا کرنے کانام ہے نہ کہ شوق امامت کا۔
صوفیا کی خانقاہ، بزرگوں کی بارگاہ اور درویشوں کے آستانے نفس کے تزکیہ کےلیے ہوتے ہیں، قلب کی پاکیزگی اور نگاہ کی بلندی پیدا کرتے ہیں، اب اگر ان زاویوں کے سجادے اور پیر زادے سیاسی بازیگری، غنڈہ گردی، چالبازی، ہوی پرستی پر اتر آئیں گے تو ان اداروں سے کیسا فیض عوام تک پہنچے گا؟! کیسی تربیت مریدوں کی ہوگی؟!
اور انجام کار خدا کے حضور کیا منہ لے کر جائیں گے؟!
اس لیے اپنا احتساب کیجئے ، خالق کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت کا جذبہ پیدا کیجیے ،دل و نگاہ کو حسد، بغض، کینہ، تکبر سے پاک کیجئے۔۔۔۔اور اگر ان امور میں دشواری پیش آئے تو کسی شیخ کامل کے آستانے کی چندے جاروب کشی کیجیے۔

و : تاریخ کی چشم صیاد بہر سو نگراں ہے۔
یاد رکھیئے تاریخ اپنی دستاویز خود تیار کرتی ہے، وہ چشم بینا نہیں؛ چشم صیاد رکھتی ہے، اس سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے۔ تاریخ نے امیر خامس اور سادس کے انتخاب کی ہلڑبازی اور سیاسی بازی گری کو فراموش نہیں کیا ہے، تاریخ کے دریچے سے “خلیل پورہ” کے غیر سماجی عناصر کے خوفناک سائے اب بھی جھانک رہے ہیں، یہ تو لوگوں کی شرافت ہے جو زبان و قلم کو سنبھال رکھا ہے، ورنہ کتنی قبائیں چاک ہوتیں، اور پگڑیاں خاک آلود ہوتیں۔
آپ لوگوں نے امارت کی رسوائی کا جو سامان کیا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس لیئے تاریخ کے دست بے رحم سے بچو۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles