Saturday, October 19, 2024

تعریف ، مشورے یا فریب

(ثناءاللہ صادق تیمی)
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آدمی خود کو اوروں سے زيادہ جانتا ہے ۔ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ کی خوبیاں کیا ہیں اور خامیاں کیا ہیں ، آپ کیا کرسکتے ہیں اور آپ کیا نہیں کرسکتے ، خاص طور سے یہ اہلیت اس وقت ضرور پیدا ہوجاتی ہے جب آپ علمی اور عملی زندگی میں کچھ عرصہ گزار چکے ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی انسان اپنے پس منظر سے زيادہ واقف ہوتا ہے ۔ گھریلو حالات ، معاشی صورت حال اور دوسری ذمہ داریاں ایسی ہوتی ہیں جہاں تک تیسرے فرد کی نظر نہیں جا پاتی ،اگر وہ ان حالات سے واقف بھی ہو اور اگر واقف ہی نہ ہو تو پھر جا بھی کیسے سکتی ہے اور یہ تمام ذمہ داریاں اور انسان سے جڑے ہوئے مسائل اس کے فیصلوں پر بہر حال اثر انداز ہوتے ہیں ۔


بہت سے لوگ آپ کی کسی ظاہری خوبی کو دیکھ کر جھٹ کوئی مشورہ دے دیتے ہیں ، ان کی نیت اچھی ہوتی ہے ، وہ خوبی بھی آپ کے اندر ہوتی ہے ، لیکن وہ آپ کی مکمل صورت حال سے واقف نہیں ہوتے ، اس لیے ان کی نیت لاکھ اچھی ہو ، آپ میں وہ خوبی بھی موجود ہو لیکن اس مشورے پر عمل آپ کے لیے گھاتک ثابت ہو سکتا ہے جب کہ کچھ لوگوں کی نیت ہی میں کھوٹ ہوتا ہے ، وہ آپ کی کسی خوبی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ، آپ کو ورغلاتے ہیں اور آپ نے سمجھداری نہیں برتی ، ان کی باتوں میں آگئے اور جوش میں کوئی فیصلہ لے لیا تو سمجھیے آپ نے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار لی ۔ جب آپ اپنی جگہ کھودیں گے تو پھر وہ مشورہ دینے والا کہیں نظر نہيں آئے گا ۔


ایک چيز اور بھی ذہن میں رکھیے ۔ بہت سے کام آپ کسی جگہ ہونے کی وجہ سے ہی کرپاتےہیں ، آپ کو فرصت رہتی ہے ، آزادی حاصل ہوتی ہے اور آپ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔ لوگ آپ کی چيزوں سے متاثر ہوتے ہیں ، کچھ جلتے ہیں ۔ دونوں مشورہ دے بیٹھتے ہیں ، دونوں کا مشورہ ایک ہی ہوتا ہے ۔ ایک کا مشورہ اس لیے غلط ہوتا ہے کہ وہ آپ کی تمام کیفیات سے کما حقہ واقف نہیں اور جوش تاثر میں مشورہ دے بیٹھا اور دوسرے کی نیت ہی یہ ہوتی ہے کہ آپ کو آپ کی جگہ سے ہٹا دیا جائے ۔ مان لیجیے کہ آپ کسی تنظیم سے وابستہ ہیں ، آپ کو لکھنے پڑھنے کے کام پر رکھا گیا ہے ، آپ کی تحریریں لوگوں کو اچھی لگتی ہیں ۔ اب مشورہ آنے لگتا ہے کہ کیا یار آپ اس تنظیم میں پڑے ہیں ، آپ تو خود کا اپنا ادارہ کھول سکتے ہیں ، آپ جوش میں آجاتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ تنظیم کا کھول پانا ، اس کے لیے ماتھا پیچی کرنا آپ کے بس کا ہے یا نہیں اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افسوس کرتے رہ جاتے ہیں ۔
بہت سے لوگ مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ سیاست میں نہ جاتے تو وقت کے ابن تیمیہ ہوتے ۔ مولانا واقعی بڑی زبردست صلاحیت کے مالک تھے ۔ علم و ادب کے امام تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے اندر قائدانہ صلاحیت تھی اور اسی قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے وہ اپنا وہ مقام بناسکے ۔ اگر وہ بھی روایتی علماء کی مانند صرف تصنیف وتالیف تک خود کو محدود کرلیتے تو ان کو اس طرح سے نہیں جانا جاتا جس طرح سے جانا جاتا ہے ۔


ایک صاحب سعودی عرب سے تعلیم مکمل کرکے انڈیا جارہے تھے ۔ حرم میں ملاقات ہوئی تو خدمت ملت و دین کی ایسی ایسی باتیں کہ مت پوچھیے جیسے سعودی عرب کی ساری آسائشیں اور ملنےوالے بڑے مناصب ملت کی خدمت پر قربان کرنےکے لیے حضرت انڈيا تشریف لے جارہے ہیں۔ہمیں بھی باتوں باتوں میں انہوں نے کچھ انمول نصیحتیں کیں اور خدمت ملت کی اہمیت سے آگاہ کیا ۔ اس وقت ہمیں ان کی باتیں سنتے ہوئے لگا کہ واقعی کیا جذبہ ہے پھر حضرت جلد ہی واپس سعودی عرب آگئے ۔ خدمت ملت کا جذبہ شاید سرد پڑگیا !!!
کہنے کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ آدمی کے اندر نرگسیت آجائے ۔ وہ کسی کی بات ہی نہ سنے ۔ نہیں ، یہ مطلب نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مشورہ کو سننے کے ساتھ اپنے حالات پر بھی نظر رکھے اور کوئی فیصلہ لے ۔ ہم تیسری دنیا کے لوگ معاشی مجبوریوں کے تحت بہت سارا وہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جنہیں ترقی یافتہ کے ممالک کے لوگ نہیں اپنا سکتے اور جن کے لیے وہ ہماری طرح مجبور بھی نہیں اور ہمارے پاس ان کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا ۔ ہم پی ایچ ڈی کسی اور فیلڈ میں کرتے ہیں اور کام کسی اور میدان میں کرنا پڑتا ہے ۔ اپنے فیلڈ میں کام کرنے کا موقع ملنا بڑی سعادت کی بات ہے لیکن جہاں چپراسی کی نوکری کے لیے کئی کئی پی ایچ ڈی والے بھی لائن میں لگے ہوں وہاں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اصل ڈرائیو کون سی چيز ہوتی ہے ۔ایک بزرگ اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کررہے تھے کہ لوگ تحقیق کی ڈگری لیتے ہیں اور یہ وہ کام کرتے ہیں ، جب تحقیق کی ہی ڈگری لینی تھی تو یہ وہ کام کرنے کی کیا ضرورت ؟ ہم نے جب معاشی اور دوسری جڑی ہوئی کیفیات کا ذکر کیا تو انہیں اس کڑوی حقیقت کی معنویت بھی قبول کرنی پڑی ۔


خلاصہ یہ کہ کسی کی تعریف سے جوش میں آنے سے پہلے اپنے آپ کو بھی پڑھ لیجیے تاکہ وہ تعریف آپ کے لیے مضرت رساں نہ ثابت ہوجائے ۔ کچھ لوگ جب تنقید سے کام نہيں بگاڑ پاتے تو تعریف سے بگاڑنے کا رویہ اپناتے ہیں ۔کچھ یوں بھی کرتے ہیں کہ آپ کے اصل کام کو چھوٹا ثابت کرتے ہیں اور دوسرے ذیلی کاموں کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ آپ کی حالت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے اصل کام کی وجہ سے ہی بعض ذیلی کام بھی کرپاتے ہیں ۔ اب اگر آپ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ آپ کہیں کے نہیں رہیں گے!!!

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles