Saturday, October 19, 2024

مسلم لڑکیوں کا اسلام سے برگشتہ ہونا لمحۂ فکریہ

(عبدالمبین)
مسلمانوں میں ایک قول زبان زد خاص وعام ہے کہ ایک مرد کا تعلیم یافتہ ہونا بس ایک فرد کا تعلیم یافتہ ہونا ہے یعنی اس سے محض اس مرد کی زندگی روشن ہوگی، جب کہ ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ایک خاندان اور معاشرہ کا تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو اس کی تعلیم سے اس کا پورا خاندان مستفید ہوگا۔ اس کے باوجود مسلمان گارجین حضرات اپنی بچیوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں جو بڑے نقصان کی شکل میں آج ہمارے سامنے آرہا ہے۔ ہماری بہت سی اسلامی بہنیں آج غیر مسلموں کے عیش وعشرت، ان کی اعلی طرز زندگی اور ان کی مالداری کی گرویدہ ہوتی دکھائ دے رہی ہیں۔ کاش! ہماری وہ بہنیں اسلامی تعلیمات سے بہرور ہوتیں توان کی نظر میں غیروں کی وہ جھوٹی شان وشوکت کی کوئی حیثیت نہ رہتی۔ اور ہمیں ان بہنوں کے ان اقدام سے ذلت ورسوائی نہیں اٹھانی پڑتی۔
اب یہ بات بھی زیر غور ہے کہ آج ہماری جتنی بھی اسلامی بہنیں اغیار سے مرعوب ہوکر ان کے چنگل میں پھنس رہی ہیں ان میں زیادہ تر وہ بہنیں ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں، کم از کم میٹرک تک کی تعلیم حاص کئے ہوئی ہیں۔ جس سے عام نا خوانداہ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کے تئیں وسوسہ بڑھ رہا ہے۔ تو ہمیں ذرا غور کرنا چاہئے کہ اسلام نے اگر کہا ہے کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے تو اس کی وضاحت کیا ہے؟ کیا اسلام کا مقصد اولی یہی ہے کہ ہم اپنے لڑکے یا لڑکیوں کو تعلیم کے نام پر صرف وہی تعلیم دیتے رہیں جس کی دنیا گرویدہ ہے؟ کیا محض وہی تعلیم دیں جس تعلیم میں مغربی تہذیب سے انسیت ہو؟ اگر تعلیم کا مفہوم ہمارے ذہن میں صرف عام دنیوی تعلیم ہو تو ہمارے بچوں کا مستقبل بھی وہی ہوگا جس سے ہم بچنا چاہتے ہیں۔ اولاً ہمیں تعلیم کی باریکی کو سمجھنا ہوگا۔ تعلیم کے دو اقسام ہیں۔ دینی تعلیم اور عصری تعلیم۔ اسلام نے عصری تعلیم سے کبھی نہیں روکا لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ صرف اور صرف عصری تعلیم ہی حاصل کریں۔ بلکہ اگر آپ اسلام کے پیروکار ہیں تو سب سے پہلے آپ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں پھر آپ جس طرح کی عصری تعلیم چاہیں انہیں دیں۔
آج مسلم لڑکیوں کا دیگر مذاہب کے لڑکوں کے دام فریب میں جانے کی جتنی بھی خبریں آرہی ہیں اللہ کے کرم سے ان میں ایسی کسی ہوا کی بیٹی کا نام نہیں آتا جو دینی تعلیم سے آراستہ ہوں۔ کسی مدرسہ کی فارغہ کا نام اس فہرست میں نہیں جو اغیار کے عشق میں گرفتار ہوکر قوم وملت کی غیرت کو تار تار کی ہو۔
آپ اپنی بچیوں کو انجینئر، ڈاکٹر، پروفیسر جو چاہیں بنائیں لیکن ان سب سے پہلے آپ اپنی بیٹیو ں کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرائیں۔ بلاشبہ وہ بہنیں عنفوان شباب میں آپ کی اسلامی غیرت کا مکمل پاس ولحاظ رکھیں گی۔ دولت کی رعنائیات انہیں اپنے اسلام کی ڈگر سے ایک انچ بھی ڈگمگا نہیں سکتی۔ اغیار کی شازشیں ان کے خیالات میں جنبش نہیں لا سکتیں، عیش وعشرت اور سروسامانی کا لالچ ان کے ارادے کو متزلزل نہیں کرسکیں گے۔
ہاں ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ آج کچھ غیر مسلم تنظیموں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو ہم اسے ڈھائی لاکھ کا چیک اور چھ مہینہ رہنے کھانے کی مفت سہولت فراہم کریں گے۔ اور اس کے لئے وہ تنظیمیں اپنی سطح سے متحرک ہیں۔ اگر ان کا منصوبہ یہی ہے تو ہمیں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔ ہمیں ماضی سے زیادہ اپنی لاڈلی کے مستقبل کی فکر دامن گیر ہونی چاہئے۔ یہ بات چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے کہ دولت کی چاہ ہر کسی کے اندر ہوتی ہے، اور اپنی زندگی میں رعنائی ہر کسی کی چاہت ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا خواب ہر کوئی دیکھتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ ملکی سطح پر مسلمان کے اندر جو غربت ہے اس کا اندازہ اغیار کو بخوبی ہے۔ ہماری اس کمزوری سے وہ فائدہ اٹھانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اگر ہم اپنی اولادوں کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی طرز تربیت سے مزین کر دیں گے تو ان کے اندر دولت اور ایمان کی حقیقت بیدار ہوگی، ان کے اندر غیرت وحمیت اور دولت وثروت کی اہمیت جاگزیں ہوجائے گی، ان کے اندر فحاشی اور عریانیت اور تہذیب وتمدن کے مابین کا فرق واضح ہوجائے گا۔ ان ہوا کی بیٹیوں میں دولت کی حرص کم اور عفت وپاکدانی کی حرص زیادہ ہوگی۔ اپنے والدین کی نافرمانی اور اپنی من مانی زندگی کے حشر کو سمجھنے لگیں گی۔ اور جب ایسا ہوگا تو اغیار کی ساری ناپاک کوششیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles