(تر ہت نیوز ڈیسک)
بہار کی نتیش حکومت کو بے نقاب کرنے کے لیے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے سمپورن کرانتی دیوس کے موقع پر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر نتیش حکومت کا رپورٹ کارڈ جاری کیا۔ رپورٹ کارڈ کے ذریعے تیجسوی یادو نے نتیش حکومت کی ناکامیوں کو گنا یا نتیش کمار کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی نشانہ بنایا، تیجسوی یادو نے ملک میں ہندو مسلم کو لے کر جاری تنازعہ پر سنگھ اور بی جے پی پر بھی تنقید کی۔ تیجسوی یادو کو اسٹیج سے کافی مسلم محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ تیجسوی نے سوال کیا کہ ملک کے تینوں آرمی چیف ہندو ہیں، صدر سے لے کر وزیر اعظم تک ہندو ہیں۔ کسی بھی ریاست کا کوئی وزیر اعلیٰ مسلمان نہیں ہے۔ اس کے باوجود کیا ہندو خطرے میں ہے؟
تیجسوی یادو جہاں مسلم محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی اور نتیش حکومت کو نشانہ بنا رہے تھے وہیں دوسری طرف ان کی اپنی پارٹی کے اندر مسلم لیڈروں کی کیا حالت ہے اس کی تصویر بھی دیکھنے کو ملی۔ اس پروگرام کی تصویر میں دیکھا گیا کہ پارٹی کے سینئر رہنما عبدالباری صدیقی تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے، انہیں کرسی نہ ملنے پر مجبوراً اسٹول پر بیٹھنا پڑا۔ دراصل جب عبدالباری صدیقی کو جگہ نہیں ملی تو انہیں سابق مرکزی وزیر جے پرکاش یادو اور بائیں بازو کے ایم ایل اے محبوب عالم کے درمیان اسٹول پر بٹھایا گیا۔ اس دوران وہ محبوب عالم اور جے پرکاش یادو سے بات کرتے رہے اور تیجسوی یادو بی جے پی اور نتیش حکومت سے مسلمانوں کی محبت کے بارے میں جھوٹ بولتے رہے۔ تیجسوی یادو نے باپو آڈیٹوریم میں منعقد پروگرام کے اسٹیج سے بی جے پی پر حملہ بولا، انہوں نے کہا کہ بی جے پی ایم ایل اے مسلمانوں کے ووٹنگ کا حق بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھایا تو سی ایم نتیش کمار نے اس پر خاموشی اختیار کی۔ حکومت پر حملہ کرتے ہوئے یادو نے کہا کہ بہار کی حکومت ناگپور سے چلائی جا رہی ہے۔
تیجسوی مسلم محبت کے بارے میں جو کچھ بھی کہہ رہے تھے، وہ اسٹیج پر موجود اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں کی حالت کو دیکھ کر میل نہیں کھا رہا تھا۔ عبدالباری صدیقی کو بھلے ہی اگلی صف میں جگہ مل گئی ہو لیکن کئی رہنما ایسے تھے جنہیں پچھلی صف میں جگہ ملی۔ دیپانکر بھٹاچاریہ سے لے کر ڈی راجہ جیسے لیڈروں کی موجودگی میں اگلی صف میں کرسی حاصل کرنے والے لیڈروں میں اودھ بہاری چودھری، شیام راجک، شیوانند تیواری، اشفاق کریم اور کانتی سنگھ جیسے لیڈر شامل تھے۔ آپ کو بتا دیں کہ عبدالباری صدیقی گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ہار گئے تھے۔ اس کے بعد سے یہ بات مسلسل چل رہی ہے کہ انہیں راجیہ سبھا یا قانون ساز کونسل میں بھیجا جا سکتا ہے، لیکن آر جے ڈی نے پہلے راجیہ سبھا میں انکا نام صاف کیا اور اب قانون ساز کونسل بھیجنے سے بھی عبدالباری کو محروم کیا۔ بالآخر ایک بڑے پروگرام میں انہیں کرسی تک میسر نہ ہوئی۔