Tuesday, November 26, 2024

ہماری کشتی کا بادبان نہیں کوئی! (تبلیغی جماعت کا غیر منظم انداز)

ڈاکٹر صغیر احمد (ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
گزشتہ تحریر میں ہم نے آپ کے سامنے وہ مسئلہ رکھا تھا جسے لے کر پوری اسلامی دنیا میں غم وغصہ کی لہر ہے۔ وہ مسئلہ تبلیغی جماعت کو لے کر سعودی عرب کا قابل مذمت بیان ہے۔ متعدد تحریری، تقریری اور ویڈیوز کے توسط سے سعودی عرب کا تبلیغی جماعت کو لے کر مذموم بیان اور مملکت سعودی میں تبلیغی جماعت پر مکمل پابندی کی ساری باتیں تقریباً ہر مسلمان کے کانوں میں جا پہنچی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر اپنے ملک میں تبلیغ اسلام کو لے کر جو پابندی عائد کی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے آج سے کئی برس پہلے بھی سعودی عرب نے تبلیغی جماعت کے عقائد، اس جماعت کے طریقۂ تبلیغ اور مہنج دعوت کو غلط قرار دیا تھا اور آج تک اسے غلط گردان رہا ہے۔
لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج تک تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے اپنے عقائد، طریقۂ تبلیغ ودعوت، اور طریقہ کار پر سعودی عرب یا دیگر لوگوں کے ذریعہ اٹھائے جارہے کسی بھی سوال کا جواب کیوں نہیں دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جماعت اپنی ان خامیوں کو سننا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتی یا پھر یہ کہ واقعی وہ خامیاں اس جماعت میں ہیں۔ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی کارکردگی، نہج اور طریقہ میں خامی ہونا یہ کوئی گناہ اور بڑی غلطی نہیں ہے۔ غلطی تب مانی جاتی ہے جب وہ جماعت، تنظیم یا فرد اپنی خامیوں کو درست کرنے کی سمت میں کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اور کچھ ایسا ہی معاملہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے۔
تقریباً دنیا کے اکثروبیشتر خطوں میں تبلیغی جماعت کے افراد پائے جاتے ہیں اورحتی الامکان تبلیغ اسلام کا کام کرتے ہیں۔ ہر اس ملک کا فرد تبلیغی جماعت میں آتا جاتا ہے جس ملک میں مسلمان ہیں۔ کوئی تین دن، کوئی چالیس دن، تو کوئی تین ماہ تک کے لئے دین سیکھنے کی غرض سے تبلیغی جماعت میں شامل ہوتا ہے۔ اور شامل ہوکر جماعت کے ہمراہ ملک یا بیرون ملک کا سفر کرتا ہے۔
کیا آج تک تبلیغی جماعت کے پاس کوئی ایک بھی ایسا ریکارڈ ہے کہ کس ملک میں تبلیغی جماعت کی کون کون سی ٹولی گھوم رہی ہے، کس ریاست میں تبلیغی جماعت کے کتنے افراد سرگرم ہیں۔ کس گروہ میں کتنے افراد شامل ہیں۔ اس جماعت کے سربراہ اور ارکان کتنے ہیں جو مستقل طورپر اس سے وابستہ ہیں۔ کون فرد اس میں شامل ہورہا ہے اس کا کسی بھی طرح کا کوئی بھی تعارفی خاکہ اس جماعت کے پاس نہیں ہے۔اس جماعت میں کم یا زیادہ مدت کے لئے شامل ہونے والا فرد کس مذہب، کا ہے یہ بھی اس جماعت کے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ بس سر پہ ٹوپی اور زبان پہ اللہ کا نام جو بھی رکھتا ہو وہ اس جماعت میں جا سکتا ہے۔ جماعت میں شامل ہونے کے لئے نہ ہی کوئی شرط ہے، نہ کوئی فارم اور نہ کوئی شناختی دستاویز لئے جاتے ہیں۔ ایسے میں تو کچھ بھی ممکن ہے کہ کوئی دہشت گرد مزاج کا فرد بھی اس جماعت کو بدنام کرنے کی غرض سے یا پھر اپنے آپ کو پاک صاف مسلمان باور کرانے کی غرض سے اس جماعت میں شامل ہوجائے اور پھر وہ کوئی ایسا کام انجام دے جو انسانیت کے لئے خطرہ ہوں۔ اور شاید اس جماعت کی ان ہی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعودی عرب نے بیان دیا تھا کہ اس جماعت سے دہشت گردی کا دروازہ کھلتا ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس جماعت کے افراد کا اب تک کوئی اس طرح کا ریکارڈ نہیں ہے اس لئے لوگوں نے سعودی کو لعن طعن کیا۔ لیکن ذراغور کیجئے کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس جماعت میں شامل ہونے والا کوئی آدمی کسی دہشت گرد تنظیم کا ممبر ہو، یا پھر اس جماعت کے ہمراہ بیرون ملک جانے والا فرد صرف اسی مقصد سے اس جماعت کے ساتھ اس ملک میں گیا ہو کہ وہاں جاکر اپنے مذموم فعل کو انجام دے۔ تاکہ دنیا کی نظر اس کی بدنیتی پر نہ جائے۔
اگر اب بھی تبلیغی جماعت نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو وہ دن دور نہیں کہ سعودی عرب ہی بلکہ دنیا کے کئی ممالک اس جماعت کو اپنے یہاں داخل ہونے پر پابندی عائد کردے۔ اس جماعت کے متعلق ایک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب تک یہ جماعت جہاں سے وجود میں آئی ہے یعنی ہندوستان کے کسی سرکاری دفتر سے رجسٹرڈ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی اور ملک کی سرکاری رجسٹر میں اس کا کوئی اندراج ہے۔ کئی دہائیوں سے تبلیغ کی راہ پر گامزن اس جماعت کے لئے یہ افسوس نہیں تو اور کیا ہے کہ آج تک اس کا کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ اس جماعت میں امدادی رقم کہاں سے آتی ہے اور کیسے کیسے خرچ ہوتی ہے اس کا کوئی ریکارڈ اس کے پاس نہیں ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ جماعت خالص چندوں پر چلتی ہے لیکن وہ چندہ آتا کہاں سے ہے اس کا کوئی تو شفاف ثبوت ہونا چاہئے۔ اس جماعت کا کیا نظام ہے، اسے کب کس ریاست میں جانا ہے وہاں کتنے دنوں تک ٹھہرنا ہے، بیرون ملک جانا ہے تو کون اس کا سربراہ ہوگا اور اس ملک کے قانون کے اعتبار سے اگر کوئی پیچیدگی آتی ہے تو وہ ملک اس جماعت کے مسائل کے حوالے سے کس سے سوال جواب کرے گا اور کون اس کا مسئول ہوگا۔ افسوس کہ ایسا کچھ بھی نظام اس جماعت کے پاس نہیں ہے۔ یعنی ایک لفظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جماعت غیرمنظم اور غیر منصوبہ بند اور بے ضابطگی کے ساتھ چل رہی ہے۔
اس پریشانی سے بچنے اور اس جماعت کو شفاف بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مرکز نظام الدین سے نکلنے والی ہر تبلیغی جماعت کے ہمراہ ایک رجسٹر ہو، ایک ممبرسازی فارم ہو، اس فارم کے ساتھ شامل ہونے والے افراد کا شناختی کارڈ ہو جو یہ ثابت کرے کہ یہ فرد مناسب ہے اور اس کا تعلق فلاں گاؤں، یا فلاں ریاست اور فلاں ملک سے ہے۔ تاکہ اس فرد کے متعلق جو بھی معاملے سامنے آئیں اس کا حل اس کے گھر اہل خاندان اور گاؤں والے کرسکیں۔ اور اس فرد کے اچھے برے کاموں کا جوابدہ تبلیغی جماعت نہ ہو، حکومت اس فرد کے معاملے میں تبلیغی جماعت پر سوالیہ نشان نہ لگائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے دارالعلوم دیوبند نے (اس کا حوالہ دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود ہے) تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد احمد کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک مولانا سعد نے دیوبند انتظامیہ کو اس ضمن میں کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ یہ خالص دینی جماعت ہے لیکن اس جماعت کے افراد تو بہر حال آدمی ہی ہیں کوئی فرشتہ نہیں۔ ان کے حرکات واعمال اور بیانات وخطابات سے ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کے قوانین کی خلاف ورزی ہوجائے ایسے میں اس جماعت کے بیانات کے بارے میں بھی ایک واضح لائحہ عمل ہونا چاہئے کہ یہ جماعت کس طرح کا خطاب کرے گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت میں شامل کسی فرد نے حکومت یا ریاست کے پروٹوکول کے خلاف کوئی بیان دیا تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہوگا؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب اس جماعت کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی نظام ہی نہیں ہے اور جب تک یہ جماعت منظم انداز اختیار نہیں کرتی اسی طرح کوئی نہ کوئی ملک آئے دن اس کے خلاف کچھ نہ کچھ بیان بازی کرتا رہے گا۔
ویسے تو عالم اسلام کے پاس ہی کوئی نظم وضابطہ نہیں ہے۔ یہ ہم نہیں بلکہ مسلمانوں کی متعدد جماعتیں اس کی مثال ہیں۔ ایران کا مسلمان اپنے انداز میں اسلام کی تشریح کررہا ہے، تو پاکستان اپنے انداز میں، سعودی، قطر، بحرین، عمان، کویت اپنے انداز میں تو دبئی اپنے انداز میں، انڈونیشیا اپنے انداز میں، تو پاکستان اور بنگلہ دیش کا پوچھنا ہی کیا۔ غرض کہ ہر مسلم ملک اپنے اپنے طریقہ سے اسلام اور احادیث نبویہ پر عمل کررہا ہے۔ ترکی اور افغانستان اسلامی شدت پسندی کی الگ مثال پیش کررہا ہے۔ تو پاکستان اسلام کی شبیہہ بگاڑنے میں عالمی سطح پر بدنام ہے۔ ہندوستانی مسلمان چاند دیکھنے سے لے کر تمام ارکان اسلام میں سعودی عرب کو ہی اپنا قبلہ سمجھتا آرہا ہے۔ ہاں ایک معاملے میں تو سعودی عرب بلاشبہ تمام اسلامی دنیا کا قبلہ ہے وہ ہے خانہ کعبہ۔ لیکن یہ کیا تک ہے کہ اپنے سارے اسلامی معاملات میں ہم سعودی کو ہی قبلہ تسلیم کرتے رہیں۔ منجملہ طورپر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج پوری امت مسلمہ غیر منظم انداز میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی تفصیل اگلے قسط میں قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعی کروں گا انشا اللہ۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles