Saturday, December 21, 2024

ہماری کشتی کا بادبان نہیں کوئی!

ڈاکٹر صغیر احمد(ایم بی بی ایس، ایم ڈی)

آج ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر ہر مسلمان آہ وبکا کررہا ہے، اور کرنا بھی چاہئے۔ کچھ ایک ملک کو چھوڑکر اسلامی دنیا کے اکثروبیشتر ممالک کےمسلمان کسی بھی ناحیے سے امن وسکون میں نہیں ہیں۔ کہیں اقتدار پانے کی ضد کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں تو کہیں، اقتدار کی باد مخالف ہواؤں سے پریشان ہیں۔ کہیں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں تو کہیں اکثریت میں ہوکر بھی پریشان ہیں۔ کہیں دین کو بچانے کے لئے پریشان ہیں تو کہیں دین بچانے والے گروہوں سے پریشان ہیں۔ کہیں دولت کی ریل پیل کی وجہہ کر اسلامی شریعت سے رو گردانی ہورہی ہے تو کہیں دولت کے حصول کو لے کر مسلمان پریشان حال ہیں۔ مسلمانوں کی کوئی جماعت نیامسلک بنانے کے نام پرپریشان ہے تو کوئی اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے کو لے کر پریشان ہے۔
ان سب کے علاوہ جس چیز نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ پریشان کررکھا ہے وہ اپنے مسلک کی توسیع،ترویج واشاعت اور اسے برتر بنانے کی کوشش۔ مسلمانوں میں جتنے مسالک اور گروہ ہیں شاید ہی دنیا کے کسی مذہب میں اتنی گروہ بندی ہوگی۔ کوئی حنفی مسلک پر فخر محسوس کررہا ہے، تو کوئی بریلوی مسلک کو بہتر گرداننے میں لگا ہے، تو کوئی قادیانی ہوکر اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہا ہے تو کوئی اہل حدیث ہوکر خود کو خوش نصیب سمجھ رہا ہے۔ یہ سب تو وہ مسالک ہیں جن کی اتباع کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نئے فرقے وجود میں آئے ہیں جن کے فلوآرسز بڑھ رہے ہیں۔ اور ابھی نہ جانے کتنے فرقے وجود میں آئیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
افسوس تو تب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ان فرقوں کے ماننے والے تمام لوگ اپنے آپ کو قرآن وحدیث کا علم بردار کہتے ہیں تو بھلا کوئی یہ بتائے کہ قرآن نعوذباللہ اسلام کو الگ الگ مسالک میں تقسیم کرنے کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تعلیمات تھیں؟ آج جس فرقہ سے پوچھئے وہ یہی کہے گا کہ امت میں متعدد فرقوں کی پیشین گوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ اس لئے فرقہ بندی غلط نہیں ہے۔ ہم ہی دین برحق پر ہیں اور ہم ہی جنت کے اصل حقدار ہیں۔ ہنسی تو تب آتی ہے جب ان الگ الگ فرقوں کے عالم دین یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علاوہ کوئی حق پر نہیں ہم ہی جنت نشیں ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہی کو اللہ نے جنت کی کنجی تھما دی ہے بقیہ تو جھنک مارنے کے لئے دنیا میں آئے ہیں۔
بڑے ہی بے باکی کے ساتھ تمام مسالک کے لوگ اللہ کے رسول کی اس حدیث کو اپنے مسلک کے لئے استدلال بناتے ہیں جس میں اللہ کے رسول نے کہا ہے کہ: “بنواسرائیل تو بہتر فرقوں میں بنٹ گئی، ہماری امت تہتر(۷۳) فرقوں میں بنٹے گی”۔ یعنی اس حدیث کو اپنے افتراق کے لئے دلیل بناتے ہیں۔ کیا واقعی اللہ کے رسول نےاپنی باتوں سے افتراق کا درس دیا ہے۔اللہ کی پناہ! قطعی نہیں۔ بلکہ ان مسالک کے ٹھیکیداروں نے اس حدیث کی غلط تشریح کر لی ہے۔ حدیث کا مقصد افتراق کی تعلیم دینا نہیں بلکہ افتراق سے روکنا ہے۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ رحمۃ للعالمین جو ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے کہ کس طرح امت مسلمہ میں اتحاد قائم ہو، کس طرح مسلمانوں کے اندر اخوت کا جذبہ موجزن رہے وہ شخص (اللہ کے رسول) بھلا ایسی پیشین گوئی کیونکر کریں گے۔ ان کی منشا امت میں تہتر فرقے کی کیسے ہوسکتی ہے۔ ہرگز ہرگز اس حدیث کا مفہوم تفریق نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں میں گروہ بندی کرنے والے بے تکے لوگوں نے اس کی تشریح غلط کرکے امت مسلمہ کو بھٹکانے کا کام کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج حنفی مسلک پر کوئی اعتراض ہوتا ہے یا چھینٹا کشی ہوتی ہے تو اہل حدیث، بریلوی، اور قادیانی یا دیگر مسالک کے لوگ یہ سوچ کرخاموش رہتے ہیں کہ ہمارا مسلک اور ہمارا دین اور ہماری شریعت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اہل حدیث مسلک پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو دوسرے مسلک کے ماننے والے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یعنی ہرکوئی ایک دوسرے کو مسلمان مانتا ہی نہیں، اگر مسلمان مانتا تو بلاشبہ اس مسلک کے لوگوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتا، اور یہی تو اسلام کی تعلیمات ہیں۔ لیکن ہر مسلک ایک دوسرے مسلک کو شریعت سے منحرف سمجھتا ہے، ہر ایک دوسرے کو بھٹکا ہوا گروہ سمجھ رہا ہے۔ کوئی بھی مسلک اپنے خود کے اندر کی کمیوں کو دیکھنا تو دور ان کمیوں کو سننا تک گوارہ نہیں کرتا۔
اسلامی دنیا میں آئے دن کسی نہ کسی مسلکی گروہ کو مسلمانوں کی دیگر جماعتوں یا افراد کے ذریعہ لعن طعن کیا جاتا ہے۔ کچھ واویلا مچتا ہے اور پھر سب معمول پر چلنے لگتا ہے۔ پھر کوئی دوسرا مسلکی فتنہ کھڑا ہوتا ہے لوگ اس پربیان بازی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ چھینٹہ کشی کرنے کا ایک معاملہ آج کچھ ایسا ہی ہمارے سامنے آرہا ہے۔ یہ معاملہ تبلیغی جماعت کا ہے جس کو لے کر سعودی عرب نے نازیبا بیانات جاری کئے ہیں۔ بات صرف لعن طعن اور اپنے آپ کو بڑا چھوٹا گرداننے کی حد تک تو ہوتی تو شاید آئی گئی ہوجاتی لیکن سعودی عرب نے اپنے بیان میں بڑا ہی شدید اور بے بنیاد الزام تبلیغی جماعت پر لگایا ہے۔ سعودی عرب کا یہ الزام بلا شبہ قابل مذمت ہے۔ اس کی کوئی تاویل جائز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ دوٹوک لفظوں میں سعودی سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لوگ تبلیغی جماعت سے دہشت گردی کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس کی تفصیل اگلے قسط میں قارئین کے نظر کی جائے گی۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles