(ڈاکٹرصغیراحمد، ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
آج بھارت کے مسلمان اپنے آپ کو معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی طورپر کمزور سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقت بھی ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم اور مقہور سمجھ رہے ہیں، دن رات اپنے آپ کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اور یہی پر بس نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحۂ نازک میں جہاں حکومت کو ان کا پرسان حال ہونا چاہئے وہاں اپنے کو حکومتی عتاب کا شکار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ انفرادی یا اجتماعی ہر طورپر مسلمان مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک لمبی اور متنازع بحث ہے۔ بہت سارے لوگ مسلمانوں کی اس اقتصادی، تعلیمی اور معاشرتی زبوں حالی کا ذمہ دار غیروں کو گردانتے ہیں۔ جو صحیح نہیں ہے۔ بلکہ اگر ایماندارانہ سوچ کا مظاہرہ کیا جائے تو بلاشبہ مسلمانوں کی ان زبوں حالی اور مشکلات کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اب بھلا کوئے بتائے کہ کیا ہندوستان میں کسی مسلمان کے بزنس کرنے پر کسی مرکزی یا ریاستی پالیسی نے پابندیاں عائد کی ہوئ ہیں؟ کیا کسی مسلم کے لئے کسی حکومت نے تعلیم کے حصول پر روک لگائی ہے؟ کیا کسی مسلمان کو بہتر طرز معاشرت اختیار کرنے پر حکومت کی طرف سے کوئی رخنہ ڈالا جا رہا ہے؟ ہرگز نہیں! پچھلے سال کے بی پی ایس سی امتحانات کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کتنے ہی مسلم امیدواروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کیا۔ اب بھلا کوئی یہ بتائے کہ کیا مرکزی یا ریاستی حکومتیں ان کامیاب امیدواروں کو اعلی سرکاری مناصب پر فائز ہونے سے روک دے گی۔ لیکن افسوس کہ ہمارے بہار کے مسلم بچے بچیاں تعلیم سے بے رغبتی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مسلم بستیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ۷۰فیصدی مسلم بچے لہو ولعب میں اپنی کم سنی کو برباد کررہے ہیں اوربالآخر ازدواجی زندگی میں جاتے جاتے سستی ملازمت کا رخ کر لیتے ہیں۔ بقیہ مسلم بچوں میں ۲۰ فیصد انٹر اور گریجویشن تک جاتے جاتے تعلیم سے منہ موڑ لیتے ہیں خواہ وجہ جو بھی ہوں، اب بھلا بتائیے کہ ایک غیر مسلم جواس کا ساتھی رہ چکا ہے وہ ایم یا دیگر پروفیشنل تعلیم حاصل کرچکے ہیں ان کے سامنے ایک معمولی انٹراور بی اے کئے ہوئے مسلم طلبا کو آخر سرکار کس بنا پر اچھی نوکری دے گی۔ ہاں کچھ ایسے مسلم طلبا ہیں جو اعلیٰ تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک ہوتے ہیں توبلاشبہ انہیں کامیابی ملتی ہے۔ ایک غیر مسلم لڑکا انٹر اور گریجویشن کے بعد اگر آگے کی تعلیم نہیں پاتا تو وہ اوباش بننے کے بجائے اپنے چوک چوراہوں پر چھوٹی بڑی کوئی بھی تجارت شروع کردیتا ہے جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ اقتصادی طورپر مضبوط ہوجاتا ہے۔ اب بتائے کہ جس اسلام نے تجارت میں برکت کی بات کہی ہے اس کے ماننے والے ٹاٹا برلا یا امبانی کے بزنس کو ہی تجارت سمجھتے ہیں اس سے چھوٹی تجارت کو وہ اپنی ہتک عزتی سمجھتے ہیں۔ اور جب تک مسلمان تعلیم یافتہ اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط نہیں ہوں گے ان کی معاشرتی زندگی قطعی بہتر نہیں ہوسکتی۔
ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی سوچ کو بدلیں، اور مفکر ملت مولانا ابوالکلام آزاد کی پیشین گوئی سے سبق حاصل کریں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ان سب مشکلات کی پیشین گوئی کئی دہائیوں قبل ہی کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بہت سارے مسلمان ان کی اس پیشین گوئی سے ناواقف ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ صرف تقسیم ہندوپاک ہی ہماری زبوں حالی کا سبب ہے۔ ایسا نہیں ہے مولانا آزاد رحمہ اللہ نے خدشات ظاہر کیا تھا، تدابیر اختیار کرنے سے نہیں روکا تھا۔ آج بھارت میں بسنے والا مسلمان مولانا کی پیشین گوئیوں کو دہرانے میں لگا ہے لیکن ان کے ظاہر کئے ہوئے خدشات سے جب سامنا ہو رہا ہے تو اس سے ابرنے کی تدابیر کی طرف ان کا دھیان قطعی نہیں ہے۔ ہاں یہ بالکل صحیح ہے کہ مولانا نے خدشات کی پیشین گوئی کی تھی لیکن اپنے تفکر کو پروان چڑھانے پر بھی ابھارا تھا لیکن افسوس کہ ہم اس سے غافل ہیں۔ ابوالکلام آزاد نے کئی موقعوں پر بھارت اور پاکستان کے مسلمانوں کومستقبل میں پیش آنے والے مشکلات کا آئینہ دکھایا تھا لیکن افسوس کہ اس وقت کے مسلم قائدین بالخصوص محمد علی جناح نے ان کی بات کونظر انداز کیا جس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان تو آج زبوں حالی کے شکار ہیں ہی پاکستان میں بسنے مسلمان بھی کوئی خوش وخرم نہیں ہیں۔
مردمجاہد، مفکرزماں، سیاسی اور صحافتی علم کے بحر بیکراں، ملک وملت کا درد رکھنے والے بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہندوپاک سے از موئے سر بھی اتفاق نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس تقسیم کی مستقبل کی تباہ کاریاں اللہ نے ان کے ذہنوں میں واشگاف کردیا تھا اس کی مثال بھڑی پڑی ہے کہ مولانا نے تقسیم کا کھیل شروع ہونے اور پھر تقسیم کی زد میں آئے ہزاروں جانوں کے ضائع ہونے کا درد ہمیشہ محسوس کیا اس درد کی کراہ ان کے سینے میں ایک انگارہ بن کر ہمیشہ دہکتا رہا۔
مولانا آزاد رحمہ اللہ نے اپنی ایک تقریر میں جو پیشین گوئی کی تھی، جس خدشہ کا اظہار کیا تھا، اور جن مشکلات سے آگاہ کیا تھا آئیے ایک بار ان کی اس تقریر کے کچھ اقتباس پڑھ کردیکھتے ہیں۔ مولانا آزادؒ نے کہا تھا کہ: ‘‘پیغمر اسلام کا ارشادہے : تمام روئے زمین میرے لئے مسجد ہے’’۔ اس لئے کسی زمین کو پاک اور ناپاک کے درجے میں بانٹنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔’
تقسیم ہندوپاک پر آزاد رحمہ اللہ نے کہا تھا:‘‘پاکستان کی اسکیم ہی مسلمانو کے لئے شکست کی علامت ہے’’۔ انہوں نے آگے کہا کہ: ‘‘مسلمان ایسی مذہبی اورمعاشرتی صفات کے حامل تھے کہ ہندوستان کی قومی اور وطنی زندگی میں پالیسی اور نظم ونسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعہ ان کی ساری قوت وصلاحیت تقسیم اور ذائع ہوجائے گی۔میرے نزدیک یہ تقسیم بدترین بزدلی کے نشان ہیں کہ میں اپنے میراث سے دست بردار ہوکر ایک چھوٹے سے ٹکرے پر قناعت کرلوں’’۔ ابوالکلام آزاد نے آگے کہا کہ: ‘‘پاکستان کے اس اسکیم کوکسی طوربھی مسلمانوں کے لئے مفید ثابت کردیا جائے تو میں اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تقسیم سے مسلمانوں کی جماعتی اور ملی مفاد کو ذرا بھی فائدہ نہ ہوگا۔ ہاں جو تجویز اور فارمولہ میں نے تیار کیا تھا مسلم لیگ اور کانگریس سے منظور کرانے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا، اس تجویز میں پاکستان اسکیم کی وہ تام خوبیاں موجود ہیں جو ان نقائص سے پاک ہیں جو ان کی اسکیم میں پائے جاتے ہیں۔ اس اسکیم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ حال ہوگا کہ جن جگہوں پر وہ ہزاروں سال سے رہ رہے تھے ایک دن اچانک اپنے آپ کو بے بس اور کسی اجنی جگہ میں رہنے والا محسوس کریں گے۔ مسلمان اقتصادی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے کمزور ہوجائیں گے۔ ایک وقت آئے گا جب ہندوستان ہندوراشٹر کی طرف گامزن ہوگا پاکستان میں بھلے ہی مسلمانوں کی مکمل اکثریتی حکومت ہی کیوں نہ قائم ہوجائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہرگز حل نہیں ہوگا۔ یہ دونوں ریاستیں الگ ہوکر اپنے یہاں بسنے والی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتیں۔ مسلمانوں کے کس مفاد کے تحت جناح نے میری تجویز کو مسترد کیا؟ ہندوستان کی تقسیم نہ تو ہندوستان کے مفاد میں تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے مفید تھا۔ تقسیم سے ہندوستانی مسلمانوں کی پوزیشن تو کمزور ہوگی ہی برصغیر میں بھی مسلمانوں کی حالت بدتر ہوجائے گی۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں کمزور مسلمان ہندوؤں کے ظلم اور انتقام کا شکار رہیں گے پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے۔ اوراسی طرح پاکستان میں بسنے والے مسلمان معاشرتی، اقتصادی کمزوری اور پسماندگی کا شکار رہیں گے ہندوسان میں بسنے والے مسلمان بھی ان کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے۔ پاکستان کے قیام سے منافرت کی ہوا ایک آئینی شکل اختیار کر جائے گی۔ اور یہ دونوں ملک خوف وحراس کے تحت اپنے اپنے فوجی اخراجات کو پورا کرنے میں پریشان رہیں گے اور ترقی سے محروم رہ جائیں گے’’۔
مولانا کی یہ تقریر آب زر سے لکھے جانے کے قابل تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ مسلم قوم خواہ وہ پاکستانی ہوں یا ہندوستانی دونوں کے ذہنوں پر ایک کاری ضرب لگانے کے لئے کافی ہے۔ اے کاش! جناح یا اس وقت کے دیگر مسلم لیڈران نے مولانا کی اس تقریر کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو آج دونوں ملکوں میں بسنے والے مسلمان اپنی اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی پسماندگی کی زبوں حالی کے درد سے نہ کراہ رہے ہوتے۔ کیا آج مسلم قائدین کا یہ فریضہ نہیں بنتا ہے کہ مولانا آزادرحمہ اللہ کے وہ خدشات جو آج سچ ثاب ہورہے ہیں اس کا کوئی مثبت حل تلاش کرے؟