(عبدالمیبن) فلسطین کے یروشلم میں بسنے والے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی جارحیت مزید بڑھتی جارہی ہے۔ قریب ایک ہفتہ سے مسلسل اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جارہا ہے۔ اب تک قریب 200سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ ظلم وبربریت کے اس ننگے رقص میں متعدد خاندان، ہلاک ہوچکے ہیں، انگ گنت ماؤں کی گود سونی، سیکڑوں عورتیں بیوہ، درجنوں معصوم بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حقوق انسانی کمیشن، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے قائم متعدد تنظیمیں تماشا بین بنی بیٹھی ہیں۔ اور صبر کا باندھ تو مزید تب ٹوٹ جاتا ہے جب اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا کہنے والے کچھ نام نہاد مسلم ممالک کے سربراہان کے خاموش چہروں کی طرف سے فلسطینی مظلومین کے آہ وبکا کے لئے کوئی تسلی بھرا تأثر ظاہر نہیں ہوتا۔ بھلا ہو ترکی، ایران، قطر، چین، اوآئی سی اور عرب لیگ کا جن کے کچھ ہمدردانہ کلمات نے نڈھال فلسطینیوں کے لئے کچھ حوصلے کا کام کیا۔
گزشتہ سموار یعنی پیر کے دن سے مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ آج اتنی تعداد میں فلسطینی مسلمان اسرائیلی جارحیت کے شکار ہوئے، دن بہ دن مہلوکین اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب تک لاکھوں فلسطینی اپنی جان کی سلامتی کے لئے اپنا گھربار چھوڑ چکے ہیں، اور لاکھوں فلسطینی مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ہرآن اپنی ہلاکت کی دہشت سے نڈھال ہورہے ہیں، لیکن ان مظلومین کاچیخ وپکار سننے والا کوئی نہیں ہے۔
فلسطین کے حالیہ تنازعہ کے اسباب: رواں سال رمضان سے قبل اسرائیل نے یروشلم کے پرانے شہر شیخ جراح میں آباد کچھ فلسطینیوں کو بزور بازو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا۔ اسرائیل شیخ جراح کے علاقے میں ایک نئی یہودی بستی قائم کرنا چہتا ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کو غیرقانونی طورپر ان کے اپنے ہی گھروں سے بے دخل کرنے کو لے کر فلسطینیوں نے رمضان کے شروع سے اسرائیلی حکام کے خلاف مظاہرہ شروع کیا۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ہمیں زبردستی اپنے ہی گھر سے کیوں بے دخل کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی مظاہرین پر ایک ماہ سے مسلسل ظلم کیا جارہا ہے انہیں بے دریغ مارپیٹ کر لہولہان کیا جارہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے غزہ پٹی میں برسراقتدار تنظیم حماس نے اسرائیل کو متنبہ کیا لیکن اسرائیل اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ تب حماس نے فلسطینی مظاہرین پر ہورہے ظلم کے جواب میں اسرائیل پر راکٹ چھوڑا، لیکن اسرائیل کی جدید تکنیکی تحفظاتی نظام نے ان راکٹو کو کو فضا میں ہی بے اثر کردیا، کچھ ایک اسرائیلی حدود میں گرے اور کچھ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ بس پھر کیا تھا اسرائیل کو مانو جیسے فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس مل گیا۔
فلسطین کی تازہ صورت حال: گزشتہ سمواریعنی پیر کے دن سے اسرائیل مسلسل غزہ پٹی پر بم باری اور فضائی حملے کررہا ہے جس میں ایک ہزار سے زائد زخمی اور دوسو سے زائد فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ فلسطین ایک بار پھر جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ جواب میں حماس کی طرف سے بھی اسرائیلی ٹھکانو ں پر حملے ہورہے ہیں۔ دونوں طرف سے حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ انسانی جانوں کی ہلاکت خیزی کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تھمے گا۔ ایک بار پھر فلسطین جنگ کا میدان بن چکا ہے۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ کی مختصر جھلک: فلسطین اسرائیل تنازعہ کوئی نیا نہیں بلکہ سوسال پرانا تنازعہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت سلطنت عثمانیہ کے شکست کے بعد برطانیہ کا فلسطین پر کنٹرول ہوا، اس وقت عالمی برادری نے برطانیہ فلسطین میں ایک قومی گھر کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ لیکن فلسطین میں موجود اکثریت مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی۔ 1920 سے 1940تک تیزی سے یہودی قوم فلسطین میں آباد ہوئیں۔ اسی دوران 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کرایا کہ فلسطین میں دو ریاستیں ایک اسرائیلی اور دوسری فلسطینی ریاست ہوگی اور یروشلم بین الاقوامی شہر ہوگا۔ لیکن اس تجویز کو اکثروبیشتر فلسطینی مسلمانو ں نے مسترد کردیا۔ 1948 میں برطانوی حکام یہ مسئلہ حل کئے بغیر ہی فلسطین سے چلے گئے۔ بس کیا تھا یہودیوں نے اپنی اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا۔ جنگ ہوئی جس میں عرب ممالک نے فلسطینیوں کا ساتھ دیا۔ لیکن اس جنگ سے تباہ شدہ لاکھوں فلسطینی اپنا گھربار چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک سال کی جنگ کے بعد جنگ بندی ہوئی۔ تب تک اسرائیل فلسطین کے زیادہ تر خطوں کو اپنے اختیار میں لے چکا تھا۔ بیت المقدس کے مغربی خطوں پر اسرائیل کا قضہ ہوا، مشرقی خطوں پر اردن کا اور غزہ پٹی پر مصر کا قبضہ ہوا۔ اس جنگ بندی میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لہٰذا اسرائیل نے ایک بار پھر جنگ چھیڑ دی اور فلسطین کا مشرقی خطہ غرب اردن کے سات شام کی گولان پہاڑیوں اور غزہ کی پٹی تمام علاقوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ زیادہ تر فلسطینی پناہ گزین ہوگئے۔ فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر شام، اردن، لبنان وغیرہ میں چلے گئے۔ جنگ کے بعد بھی اسرائیل نے کسی فلسطینی نسل کو لوٹ کر اپنے آبائی وطن آنے سے روک دیا۔ کچھ عرصہ بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے فوجیں ہٹالیں اور یہاں حماس کا قبضہ ہوا۔ اسرائیل پورے فلسطین کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی ریاست تصور کرتے ہیں۔ جو درحقیقت فلسطینیوں کا ہی ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں چھ لاکھ یہودی فلسطین میں آباد ہوئے ہیں۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین سے فلسطینیوں کے صفایا کی کوشش میں لگا ہے۔
اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ مسجداقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کی جائے۔ اور فلسطین کو یہودیوں کے لئے ایک مقدس مذہبی مقام بنایا جائے۔ جب کہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی ہی ہے اور آج بھی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا سب سے مقدس مقام مسجد اقصی ہی ہے۔ اور مسجد اقصی کے تقدس کے لئے فلسطینی مسلمان اپنی بے دریغ قربانیاں پیش کریں گے۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالم اسلام کا رد عمل: خبروں پر نظر ڈالی جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو اپنی حرکت سے باز آنے کو کہا، بعدازاں ایران نے اسے فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی پامالی قرار دیا۔ اور اردغان نے ملائشیا اور قطر سے اپیل کیا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی تشدد کو روکنے میں وہ دونوں ممالک ترکی کا ساتھ دیں۔ دیگر عرب ممالک سے بھی اس معاملے حق گوئی کی اپیل کی ہے۔ ترکی میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور مظاہرے ہورہے ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ اور انسانی حوق پر اسرائیلی ضرب کاری کو روکنے کی بات کہی ہے۔ ادھر ایک دو روز سے سعودی عرب نے بھی اس حادثے کی مذمت شروع کی ہے۔
ابھی کچھ ماہ قبل متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین متعدد مسائل کو لے کر ابراہیم معاہدہ ہوا تھا جس میں تجارت، سے لے کر کئی معاملات پر مہر لگے تھے۔ ساری دنیا بالخصوص عرب ممالک بڑا اطمینان محسوس کررہے تھے۔ لیکن اسرائیل اپنی سازش سے بھلا کب باز آئے گا۔ اب دیکھنا ہے کہ عرب ممالک اس ابراہیم معاہدہ کو اہمیت دیتے ہیں یا اسرائیلی بربریت کے خلاف حقوق انسانی اور مسلمانوں کے چیخ وپکار کو سنتے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن عہدہ صدارت پر فائز ہوتے ہی ایک مدرسہ میں گئے تھے جس سے عالم اسلام کو لگا تھا کہ شاید ان کے دل میں اسلام سے نفرت نہیں لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ یہ محض چھلاوا تھا دراصل امریکی صدر یہ دیکھنے گئے تھے کہ مسلمان پرسکون کیوں ہے؟ یہ بات ثابت بھی ہوگئی کیوں کہ پچھلے ایک ہفتے میں امریکہ نے نہ تو اقوام متحدہ کی اس تجویز پر اظہار رائے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ شیخ جراح کے فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے پر اسرائیل قدغن لگائے۔ اور نہ ہی ہزاروں فلسطینی کے بہتے ہوئے لہو پر کچھ بول رہے ہیں۔ البتہ اسرائیل کی حمایت ضرور کرتے نظر آرہے ہیں۔ اسی کو دیکھ کر چین نے کہا ہے کہ آج امریکہ فلسطینی پر ہورہے تشدد کے خلاف کیوں خاموش ہے۔ کیا وہاں حقوق انسانی کی پامالی نہیں ہورہی ہے؟ کیا فلسطین کے مسلمانوں کو بے گھر کرنا صحیح ہے؟ ایسے کتنے سوالات ہیں جن کا صحیح اور مناسب جواب تو امریکہ، یورپ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین یا دیگر ممالک کے پاس تو ضرور ہے ہر کوئی حقوق انسانی کا راگ الاپتا ہوا نظر آتا ہے لیکن صرف زبانی طورپر۔ سیکڑوں سال سے فلسطینی مسلمانوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے لیکن پوری دنیا بالعموم اور عرب ممالک بالخصوص تماش بین بنا بیٹھا ہے۔