Saturday, November 23, 2024

تنظیموں اور اداروں کی  تقسیم نے ملت کو رسوا اور بے حیثیت کردیا، آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟

(مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی)

امارت شرعیہ ایک باوقار ادارہ ہے، جس کا دائرہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ بلکہ موجودہ وقت میں بنگال بھی اس میں شامل ہوگیا ہے ، اس طرح اس کا دائرہ وسیع ہے، اور یہ ایک مثالی ادارہ ہے۔

          امارت شرعیہ کا  قیام  1921 میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کو 100/ سال پورے ہو چکے ہیں ۔ اس 100/ سال کی مدت میں اس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ گرم و سرد کے بیچ اس نے مسلم سماج کی ہر محاذ پر رہنمائی کی ہے۔ شرعی امور بالخصوص قضاء کے کام میں یہ ادارہ  نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں  کا رہنما ہے بلکہ اس معاملہ میں دنیا کے اکثر ممالک نے اس سے رہنمائی حاصل کی ہے۔

             ہندوستان میں آزادی کے بعد مسلمان اقلیت میں آگئے۔ ان کی مدد اور  رہنمائی کے لئے ملی تنظیموں کی  سخت ضرورت تھی، اس بیچ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی رہنمائی  اور ان کی مدد کے لئے جہاں  جمعیت علمائے ہند اور آل انڈیا مومن کانفرنس پیش پیش رہی، وہیں شرعی امور میں رہنمائی کے لیے امارت شرعیہ نے آگے بڑھ کر کام کیا، اور اپنی کارکردگی سے ملک اور بیرون ملک کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ آزادی کے بعد جس طرح مسلمانوں کے درمیان ملی تنظیموں نے کام کرنا شروع کیا، اسی طرح برادران وطن کے درمیان بھی بہت سی تنظیموں نے کام کی شروعات کی، آر ایس ایس ،ہندو مہا سبھا وغیرہ تنظیمیں بھی تحریک آزادی ہی کے دور سے کام کر رہی ہیں، جس طرح قوموں پر عروج و زوال  ہوتا ہے، اسی طرح تنظیموں پر بھی زمانہ اور حالات کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

              برصغیر  میں آزادی کے بعد مسلم اور غیر مسلم سماج میں فرق ہمیشہ سے رہا ہے، ایک اللہ، ایک قرآن اور ایک مذہب کے ماننے والے مسلمان  ہمیشہ مختلف  گروہوں، فرقوں اور طبقوں میں منقسم نظر آئے،اور تقسیم در تقسیم نے ان کو بے حیثیت بنادیا، جبکہ برادران وطن جو منتشر تھے، اور بہت سے خداؤں کے ماننے والے تھے اور ابھی بھی ہیں، وہ یکجا دیکھنے کو ملے، یہی حال تنظیموں کا ہے، آزادی کے بعد مسلمانوں کی تنظیمیں تقسیم ہو گئیں، ادارے تقسیم  ہوگئے۔ جمعیت علماء دو حصوں میں بٹ گئی،  تبلیغی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، آل انڈیا مومن کانفرنس پانچ حصوں میں بٹ گئی، دارالعلوم دیوبند تقسیم اور مظاہر العلوم تقسیم  ہوگیا، جبکہ برادران  وطن کی تنظیمیوں اور اداروں کا جائزہ لیا جائے، تو ان کے اداروں میں سے کوئی تقسیم نہیں ہوئے، بلکہ وہ یکجا ہو کر مزید مضبوط ہوئے ہیں، بہت سے حضرات کہتے ہیں کہ تقسیم سے کوئی فرق نہیں پڑا، بلکہ دائرہ وسیع ہوا ہے، ایسے حضرات یہ نہیں سوچتے کہ تقسیم در تقسیم کے مسلمانوں کی ہوا اکھاڑ دی ہے اور وہ بے حیثیت ہو کر رہ گئے۔

          ادارہ یا تنظیم  اس کی حیثیت عوامی ہوتی ہے، جب  اس کا دائرہ بڑھتا ہے تو اس کو آئین و اصول کے ذریعہ  مضبوط کیا جاتاہے۔ چنانچہ کوئی ادارہ ہو یا تنظیم، اس کا آئین و دستور ہوتا ہے۔ اس کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، جس کے تحت تنظیم اور ادارہ چلتا ہے۔

امارت شرعیہ بھی ایک تنظیم ہے۔ اس کا بھی آئین اور دستور ہے، جس کے تحت یہ ادارہ چل رہا ہے، یہ ادارہ موجودہ وقت میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعہ رجسٹرڈ ہے۔ دستور اور ڈیڈ کے مطابق اس کے ممبران ہیں، شوری، عاملہ  اور مجلس ارباب حل وعقد کے ممبران ہیں۔

      امارت شرعیہ کی تشکیل امارت کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کی روشنی میں ہوتی آرہی ہے، اور گزشتہ تشکیل بھی امارت کے آئین کے مطابق ہوئی۔

      یہ طریقہ متعین ہے کہ کسی بھی تنظیم  کا آئین و دستور موجود ہو تو اس کی تشکیل اس کے آئین و دستور کی روشنی میں اس کے ممبران کے ذریعہ ہوتی ہے، یہی جمہوری طریقہ ہے، اور اسی کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ موجودہ وقت میں امیر کے انتخاب کو جھارکھنڈ انتشار سے جوڑا جارہا ہے، اور اس کے ذریعہ فتنہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس لئے امیر کے سلسلہ میں  کچھ ضروری معلومات تحریر ہیں۔

        امارت شرعیہ کا کلیدی عہدہ ” امیر ” کا ہے، امارت شرعیہ  کے دستور میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ ” امیر کے اوصاف کیا ہوں ؟ ”  اسی کے مطابق ” امیر شریعت ” کا انتخاب ہوتا ہے، امارت شرعیہ کے دستور میں امیر کے اوصاف  میں پہلی صفت یہ ہے کہ وہ عالم با عمل ہو، امارت شرعیہ کے گزشتہ انتخاب میں ایک  شخصیت ایسی تھی، جن کے بارے میں عوام کا اعتراض تھا کہ وہ عالم نہیں ہیں، اس لئے وہ ” امیر ” نہیں بن سکتے ہیں، اور اگر انتخاب ہو تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں  لے سکتے ہیں، چنانچہ عالم کون ہیں،؟  کسی ادارہ کا فارغ التحصیل ہونا ضروری ہے کہ نہیں ؟ اس کی وضاحت کے لئے علماء پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی کے ایک ممبر مولانا نذر  توحید  مظاہری صاحب بھی تھے، اس کمیٹی نے یہ فیصلہ دیا کہ نجی اور خانقاہی نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بھی عالم کے زمرے میں آتے ہیں، اس اعتبار سے جناب  احمد ولی فیصل رحمانی عالم کے زمرے میں آتے ہیں، علماء  کمیٹی کے اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا، چنانچہ انہیں انتخاب میں شامل کرایا گیا، اس مجلس میں صوبہ اور بیرون صوبہ کے اکابر علماء موجود تھے ، کسی نے اعتراض نہیں کیا، اس کے باوجود چند لوگ ایسے ہیں ،جو اس کے خلاف رائے رکھتے تھے اور وہ آج بھی ایسی رائے رکھتے  ہیں، اور وہ  جمہوری فیصلہ کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ جبکہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنی بات امارت تک پہنچانے کے لیے امارت شرعیہ کے دستور سے مدد حاصل کرتے یا امارت شرعیہ کے ممبران تک اپنی بات پہنچا کر اس کا حل تلاش کرتے، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ چند اشخاص کی رائے کو امارت شرعیہ کے ممبران اور اکابر علماء نے جائزہ لے کر اسی موقع پر رد کردیا۔ پھر بھی  اس پر اصرار کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

        خبر کے مطابق جھارکھنڈ کے لوگوں نے امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ اور جھارکھنڈ سے الگ ہوکر امارت شرعیہ جھارکھنڈ کی تشکیل کر لی ہے، خبر کے مطابق ایسا کرنے والے چند حضرات ہیں، میں نے پہلے اس کی وضاحت کی ہے کہ امارت شرعیہ کوئی عام ادارہ نہیں ہے۔ اس کا باضابطہ دستور اور آئین ہے، اس کے ساتھ  یہ رجسٹرڈ بھی ہے، یہ قانون کے دائرہ میں چلتا ہے، اس کے ممبران ہیں، بہار کے بھی ہیں ،جھارکھنڈ اور اڈیشہ کے بھی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ٹرسٹی میں ایک نام مولانا نذر توحید مظاہری صاحب کا بھی ہے۔ پھر اتنی بندشوں کے باوجود اس سے بے ضابطگی کے ساتھ الگ امارت شرعیہ جھارکھنڈ کی تشکیل کرنا  کسی بھی طرح مناسب نہیں، بلکہ قانونی اعتبار سے غیر صحیح کہا جائے، تو بیجا نہ ہوگا۔

      جہانتک امارت شرعیہ جھارکھنڈ کی  الگ تشکیل کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ صوبہ الگ ہونے سے اس کے تقاضے الگ ہو گئے ہیں۔ میرے خیال سے الگ امارت قائم کر لینے سے تقاضے پورے نہیں ہوں گے، بلکہ اس سے کمزوری آئے گی، ملت اور امت تقسیم ہوکر بے وزن ہو جائے گی ۔       موجودہ حالات کے تناظر میں امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ  کے جو ممبران بالخصوص جھارکھنڈ، اڈیشہ اور بنگال کے ہیں، ان تمام لوگوں کو چاہئے کہ وہ آپسی اتحاد مضبوط کریں، اور تنظیم کو ٹوٹنے سے بچائیں، الگ الگ تنظیم بنانا لینا مسائل کا حل نہیں۔ مسائل کے حل کے لئے آپس میں بیٹھ کر حل تلاش کریں اور ملت کو تقسیم در تقسیم ہونے سے بچائیں۔ موجودہ وقت میں ملت کو اتحاد کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ امارت شرعیہ کی حفاظت فرمائے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles