(ابوالقیس عبدالعزیز مدنی، استاد جامعہ امام ابن تیمیہ)
مملکت سعودی عرب کی پوری تاریخ میں فلسطین کے تعلق سے اس کا موقف یکساں رہا ہے۔ کبھی بھی اس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ عرب فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس کی جائے اور اسرائیل نام کی استعماری اور ظالم وغاصب حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے۔ 1935ءمیں مسئلہ فلسطین کو لے کر ہوئی ”گول میز کانفرنس“ میں مملکت نے اپنا یہ موقف پورے شد ومد کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا۔1943میں مملکت نے قدس کے اندر اپنا سفارت خانہ قائم کیا۔ تاکہ فلسطینی عوام کے ساتھ رابطہ آسان ہو اور اس کے مسئلے کے منصفانہ حل تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ 1945ءمیں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے امریکی صدر روزویلٹ کو ایک خط لکھا تھا جس میں پوری تفصیل سے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کی گئی تھی اور اسی خط کا اثر تھاکہ صہیونی ڈھانچہ کے تعلق سے روز ویلٹ انتظامیہ نے اپنا موقف بدل دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسرائیل نام سے کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی۔ فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کی تاریخ میں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خط نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔
مملکت سعودی عرب نے فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے روز اول سے جو موقف اختیار کیا وہ آج بھی اس پر قائم ودائم ہے تمام بین الاقوامی سیاسی پلیٹ فارم پر مملکت نے مظلوم فلسطینیوں کی آواز اٹھائی۔ اوردامے، درمے، قدے، سخنے جہاں تک جو بن پڑا کیا، مالی امداد میں تو اس نے دنیا کے تمام مسلم ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا، جون 1967میں اس نے عوامی عطیہ سے 16ملین ریال سے فلسطینی عوام کی مدد کی۔ دسمبر1968ءمیں وہاں کی فتویٰ کمپنی نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ زکاة کا مال مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کی مد میں دینی جائز ہے۔ 1969ءمیں اس وقت فلسطین حمایت کمیٹی کے صدر شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے جو دو اقدامات کیے ان میں پہلا سعودی ملازمین سے فلسطینی مجاہدین ،قیدی اورشہیدوں کے لیے اپنی تنخواہ کا ایک فیصد رقم مختص کرنے کو کہا۔ دوسرا یہ ہے کہ عام شہریوں ، اداروں اور کمپنیوں کو منظم طور پر فلسطین حمایت کمیٹی کے اکاﺅنٹ میں مالی تعاون جمع کرنے کو کہا گیا۔ 1988ءمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے 160ملین ریال بھیجے گئے۔
1989ءمیں اس وقت کے امیرِ ریاض شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے ریاض میں فلسطینی سفارت خانہ کا افتتاح کیا اور اس پر فلسطینی جھنڈا نصب کیا۔ اس وقت یاسر عرفات نے ان کے کام سے متاثر ہوکر فلسطینیوں کی حمایت کے لیے قدس میڈل انہیں پہنایاتھا۔
2019ءمیں مکہ میں عرب چوٹی کانفرنس میں مملکت سعودی عرب نے ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ ” مسئلہ فلسطین ہمارا پہلا مسئلہ رہے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کے سارے مسلوب حقوق نہیں مل جاتے اور ان کی خود مختار حکومت قائم نہیں ہوجاتی جس کی راجدھانی مشرقی قدس ہو“۔
جب سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قدس کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اسے ”صدی ڈیل“ کا نام دیا تو مملکت نے اس پر سخت اعتراض کیا اور تنبیہ کی کہ اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔
غزہ پر صہیونی ڈھانچہ کے حالیہ حملوں کی شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ مملکت فلسطینی عوام کے ساتھ ہے۔ گذشتہ جمعہ کو مملکت کی ساری مساجد کے اندر فلسطینیوں کے لیے عوامی عطیہ مہم کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں غزہ مسلمانوں کی مدد کے لیے 295ملین ریال جمع کیے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی کاز کی حمایت میں مملکت کا کردار تاریخِ فلسطین کا روشن باب ہے، جو لوگ اس مسئلے میں مملکت کو مطعون کرتے ہیں اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، وہ حقیقت حال سے بالکل نابلد ہیں، ان حضرات کو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے دیگر مسلم ممالک نے کیا کیا ہے اسے بھی پیش نظر رکھنا چاہیے ، بعض ممالک کے ذریعہ اسرائیل کے خلاف دھمکی آمیز بیانات کو ہی یہ لوگ سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے مملکت کا مسلسل تعاون کسی سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر محض اسلامی اخوت اور حمیت کے تحت ہوتا رہا ہے۔