Sunday, November 24, 2024

فلسطین اور اسرائیل کا قضیہ: تاریخ کی روشنی میں

(مولانا ڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی)

پہلی جنگ عظیم  سے پہلے دنیا کے کئی بر اعظموں میں خلافت عثمانیہ کی سلطنت قائم تھی،  اس کا دائرہ بہت وسیع تھا، یہ سلطنت 12 ویں صدی سے 17 ویں صدی تک دنیا کے بڑے حصہ پر پھیلی  رہی، اور مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام دیتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم جرمنی اور برطانیہ  کے درمیان ہوئی، یہ جنگ 1914 سے 1918 تک جاری رہی، اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا، اس جنگ میں  جرمنی ہار گیا، جنگ کے ختم ہونے کے بعد برطانیہ نے انتقامی کاروائی شروع کی، اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، جس کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ کے مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے، فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا، 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلان بالفور کہا جاتا ہے، اس میں کہا گیا کہ برطانیہ فلسطین میں آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا، اوراس نے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے اور آزاد یہودی ریاست آباد کرنے میں مدد شروع کی، جب فلسطین کے مسلمانوں کی جانب سے  یہودیوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آنے لگے اور آپس میں  دونوں کے درمیان جھڑپیں ہونے لگیں، تو برطانیہ نے فلسطین سے واپس جانے کا فیصلہ لیا، اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کی درخواست کی، اقوام متحدہ نے 1947 میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے، مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد ہے، وہاں یہودی اسرائیل  نام کی ریاست قائم کرے اور مشرقی علاقے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں فلسطین کے مسلمان اپنی ریاست قائم کریں، جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے، یہودیوں نے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، جبکہ فلسطین کے مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان ایک یہودی ریاست کے قیام کو مسترد کردیا، پھر بھی  یہودیوں نے 14/ مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا، جس کے نتیجہ میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی، یہ جنگ 1967 تک جاری رہی، اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، اور فلسطین کے اور کچھ علاقوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا، فلسطین کے بقیہ علاقے پر مصر، شام، لبنان اور اردن نے بھی  قبضہ کر لیا، یہ صورت حال 1967 تک رہی، اس جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے پورے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح مقدس مقامات پہلی دفعہ یہودیوں کے قبضہ میں آگئے،  مقامات مقدسہ میں مسجد اقصی بھی ہے، جو تمام مذاہب کے اعتبار سے مقدس ہے، یہ مسجد  اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، یہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کے بیان میں اس مسجد کا ذکر  موجود ہے ( سورہ الاسرائیل : 1 )۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی  موجود تھی، روایت کے مطابق سفر معراج کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے اور یہاں تمام انبیاء کرام کی امامت کی اور پھر آسمانوں کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔

حضرت  ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصی، میں نے سوال کیا کہ  مسجد حرام اور مسجد اقصی ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے، نماز پڑھ لو، کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ( صحیح بخآری )

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، نماز کی فرضیت کے بعد 16 سے17 مہینے تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے، پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا، اس طرح مسجد اقصی کی  اور بھی بہت سی فضیلتیں روایات سے ثابت ہیں۔

موجودہ وقت میں مسجد اقصی اور دیگر مقامات مقدسہ اسرائیل کے قبضہ میں ہیں، اس کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں عام بیزاری پائی جاتی ہے۔

فلسطین کی تاریخ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل نے طاقت کے بل پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے، جس کی وجہ سے عرب ممالک بالخصوص فلسطین کے مسلمانوں میں  ہمیشہ بیزاری رہی اور آج بھی ہے، فلسطین کے لوگ اپنی سر زمین کو اسرائیل سے واپس لینے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے رہے، اور آج تک یہ کوشش جاری ہے۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles