Sunday, October 20, 2024

مسلمانوں کو آرایس ایس میں جوڑنے کی کوشش حقیقت یا سیاسی فریب

ڈاکٹر صغیر احمد(ایم بی بی ایس، ایم ڈی)
یوپی انتخابات کی سگبگاہٹ کے ساتھ ہی ملکی سطح پر یہ خبر گردش کرنے لگی ہے کہ آرایس ایس اب مسلمانوں کو اپنی تنظیم میں جوڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ آرایس ایس چیف موہن بھاگوت کا بیان بھی اس ضمن میں کافی سرخیوں میں ہے۔ جس میں انہوں نے مسلمانوں کو سنگھ سے جوڑنے کی بات کہی ہے۔ وہیں چترکوٹ میں ہوئے آرایس ایس کے اجلاس میں جہاں بہت سارے تنظیمی مقاصد پر تبادلۂ خیال کیا گیا وہیں اس نشست میں ایک اہم فیصلہ یہ بھی لیا گیا ہے کہ اب مسلمانوں کو آر ایس ایس سے جوڑنا ہے۔ مسلم بستیوں میں سنگھ کی شاخیں قائم کرنی ہیں۔ ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کو بھی اس تنظیم کا حصہ بنانا ہے۔ اس تنظیم کے اہداف ومقاصد سے مسلمانوں کو بھی واقف کرانا ہے اور انہیں یہ سمجھانا ہے کہ سنگھ کے اہداف ان کے خلاف نہیں ہیں۔ اب اس کوشش کی حقیقت کیا ہے کیا آر ایس ایس اور بھاجپا واقعی مسلمانوں کو سنگھ کے قریب کرنا چاہتی ہے؟ کیا حقیقی معنوں میں مسلمانوں کو سنگھ کی رکنیت انہیں اختیارات کے ساتھ دی جائے گی جو ہم وطن بھائیوں کو دی جاتی ہے؟ یا پھر سنگھ کی یہ کوشش ایک سیاسی فریب ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو مسلمانوں کو جوڑنے کے تئیں سنگھ کی موجودہ پالیسی کو لے کر مسلمانوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔
آرایس ایس چیف موہن بھاگوت کا بیان: سنگھ کے صدر موہن بھاگوت نے کچھ مہینے قبل یہ بیان دیا تھا کہ: ‘‘ ہندو اور مسلمان دونوں کا ڈی این اے ایک ہے اور ہندوستان کو عالمی گرو بنانے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکجا ہوکر کام کرنا پڑے گا۔’’
موہن بھاگوت کا بیان سو فیصدی حقیقت پر مبنی تو نہیں ہے البتہ کچھ فیصد مسلمان اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہے، یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ موہن بھاگوت نے اس حقیقت کو قبول کرنے میں بڑی دیر لگا دی۔ کیونکہ موہن بھاگوت کے سابقہ تمام بیانات مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے آج سے قبل کبھی بھی مسلمانوں کے تئیں مثبت رویہ نہیں رکھا۔ آج اچانک سے اُنہیں دونوں کا ڈی این اے ایک نظر آ رہا ہے۔ بہر کیف آج اگر انہوں نے مسلمانوں سے نرمی کا اظہار زبان سے ہے سہی کیا ہے تو انہیں اپنے قول و عمل دونوں کے تضاد کو دور کرنا ہوگا۔
چتر کوٹ اجلاس میں مسلمانوں کے تئیں لئے گئے فیصلے: کچھ دنوں قبل چتر کوٹ میں آر ایس ایس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں تنظیم کے دیگر فیصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم فیصلہ یہ لیا گیا تھا کہ اب سے مسلمانوں کو بھی آرایس ایس تنظیم کا حصہ بنایا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس تنظیم کے اہداف سے پوری طرح روشناش کرایا جائے گا، انہیں باور کرایا جائے گا کہ اس تنظیم کے اہداف ان کے خلاف نہیں ہیں۔ بھارت کے ہر مسلم بستیوں میں سنگھ کے برانچیز کھولے جائیں گے۔ ان شاخوں کے توسط سے مسلمانوں کو آرایس ایس سے جوڑنے کا کام کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ‘‘مسلم راشٹریہ منچ’’ نامی ایک تنظیم بہت پہلے سے مسلمانوں کو سنگھ سے جوڑنے کے لئے تگ ودو کررہی ہے۔ اور مسلمانوں میں سنگھ کے تئیں پائی جانے والی سوچ کو بدلنے کی کوشش میں یہ تنظیم مصروف ہے۔
ان سب کے باوجود چاہے فریب ہی سہی لیکن ایک بات بڑی خوش آئند لگ رہی ہے کہ آرایس ایس اپنے قیام کے سوسال کے قریب پہنچنے پر آج پہلی دفعہ براہ راست اپنے بیانوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ اب اس کوشش کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف جوڑنے کے بیان سے مسلمانوں میں سنگھ کے تئیں ہمدردی پیدا ہوگی؟ نہیں! بالکل نہیں! کیونکہ اب بھی سنگھ اور بھاجپا کے قول وفعل میں تضاد ہے۔ کیا آج تک کسی مسلمان کی ماب لنچنگ پر بھاجپا نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے گنہگاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا؟ کیا آج تک کسی برسراقتدار لیڈر نے اس سنگین جرم کی مذمت کی؟ کیا موجودہ حکومت نے ماب لنچنگ کے حادثات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنایا؟ نہیں! تو پھر مسلمانوں کے اندر سنگھ یا حکومت کے تئیں ہمدردی کیسے پیدا ہوگی؟ کیا آج تک مسلمانوں کے کسی بھی مسائل پر حکومت نے کھل کر بیان جاری کیا؟ جواب نہیں میں ہے۔
ان سب کے باوجود اگر سنگھ یا بھاجپا مسلمانوں کو واقعی اپنے قریب کرنا چاہتی ہے ان کے دلوں میں جگہ بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کے دانشوران سے رابطہ کرے۔ ان مسلم دانشوروں سے نہیں جو قوم میں اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔ کچھ ایک مسلم نام بھاجپا میں آج بھی سرفہرست ہیں جنہیں مسلمان تلخ کلامی سے یاد کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ضمیر سے زیادہ اپنے سیاسی مفاد کو اہمیت دی۔ ہاں کچھ نام جیسے ظفرالاسلام وغیرہ ہیں جنہوں نے قوم کا سودا کرکے نہیں بلکہ اپنی فہم وفراست سے بھاجپا میں جگہ بنائی ہے۔ اگر ان جیسے لوگوں کو بھاجپا مسلمانوں میں بھیجتی ہے اور حقیقی وعدوں کے ساتھ بھیجتی ہے تو زیادہ ممکن ہے کہ مسلمان گلے شکوے بھول کر بھاجپا سے ہمدردی کا اظہار کریں گے۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ کل جس سے اس کی دشمنی تھی آج اس سے دوستی ہوگئی، کل جس سے دوستی تھی آج اس سے دشمنی ہوگئی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دوستی کی بنیاد صاف دلی پر ہو، حقیقت پر ہو فریب پر نہیں، وعدہ وفائی کے عہد کے ساتھ ہو وعدہ خلافی کے خنجر کے ساتھ نہ ہو۔
اگر سنگھ یا بھاجپا واقعی مسلمانوں کو اپنی طرف لانا چاہتی ہے تو اسے اپنے رویہ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ مسلمانوں کے مسائل کا سددباب بننا ہوگا، مسلمانوں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ کیونکہ ایک ہی چیز ہے جو خریدی نہیں جاسکتی وہ ہے اعتماد۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان آرایس ایس اور بھاجپا کے تئیں غلط فہمی پالے ہوئے ہیں۔ تو انہیں علم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں میں غلط فہمی نہیں بلکہ درد ہے۔ غلط فہمی اور درد میں بڑا فرق ہے۔ مسلمانوں نے بہت کچھ سہا ہے، بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ اس کے باوجود وہ تنظیم میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ یہ قربت کی یہ کوشش ایماندارانہ ہو۔ نہ کہ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے محض ایک فریب ہو۔

Related Articles

Stay Connected

7,268FansLike
10FollowersFollow

Latest Articles